اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر تجزیہ کار رئوف کلاسرا نےاپنے وی لاگ میں کہاہے کہ اسے اندرونی کہانی کہہ لیںکچھ میری ذرائع سے بات ہوئی یہ ہوا کیسے تھاکہ نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ دھرنے کے دوران مجھے اس وقت کے ڈی جی ایس آئی ایس جنرل ظہر السلام عباسی نے یہ پیغام دیا کہ آپ استعفیٰ دیدیں لیکن میں نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس وقت جنرل ظہیر السلام نواز شریف کے پاس گئے تھے اور نواز شریف کو فیس ٹو فیس کہا تھا اور اس کے بعد انہوں نےاستعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ۔ میری معلومات کے مطابق ایسے نہیں ہوا تھا کیونکہ ڈی جی آئی ایس آئی کو وزیراعظم ہی تعینات کرتے ہیں اور وہ اپنے چیف ایگزیکٹو کو ایسے جا کر نہیں کہہ سکتا کہ آپ استعفیٰ دیں ، نہیں دیں گے تو ہم آپ کو گرفتار کر لیں گے یا پھر ملک میں مارشل لاء لگ جائے گا ۔ دوسرا اس وقت جنرل راحیل شریف بھی ڈی جی آئی ایس آئی کیساتھ نواز شریف سے ملنے گئے تھے اور کور کمانڈر نے بڑا اہم پیغام دیا تھا کہ آپ جائیں اور نواز شریف کو یہ پیغام دیں ، جنرل راحیل شریف ، ڈی جی آئی ایس اور نواز شریف کے مابین ڈیڑھ دو گھنٹے ملاقات ہوئی لیکن بڑی حیران کن طور پر جو بات جنرل راحیل شریف کو کور کمانڈر نے بات کہی تھی کہ یہ بات آپ نے نواز شریف سے کرنی ہے وہ انہوں نے نہیں کی تھی ۔ جب ملاقات ختم ہوئی تو اور وہ واپس باہر آئے توجنرل ظہیر السلام نے جنرل راحیل شریف سے کہا کہ سر آپ نے وہ پیغام نواز شریف کو کیوں نہ دیا ، شہباز شریف ، ماڈل ٹائون واقعے پرذمہ داری لیں اور استعفیٰ دیں ، اس پر جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ نہیں رہنے دیں یہ بات ابھی نہیں کرنی ۔ ان کا کہنا تھاکہ جنرل ظہیر ذہنی طور پر تیار نہیں تھے کہ نواز شریف کو جانا چاہیے یا استعفیٰ لینا چاہیے یا پھر شہباز شریف کا لینا چاہیے ۔