سندھ حکومت تحلیل کی جائے اور اپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے، اے پی سی میں مولانا فضل الرحمان کا دبنگ انداز

20  ستمبر‬‮  2020

اسلام آباد (این این آئی) جے یوآئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اے پی سی میں اسمبلیوں سے استعفیٰ اور سندھ اسمبلی کو تحلیل کر نے کی تجویز دیتے ہوئے کہاہے کہ میرے نزدیک سینٹ چیئر مین بھی جعلی ہے، پارلیمنٹ کی اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بنا کر بل منظور کرلیا، اب تو مجھے اسمبلی کا اسپیکر بھی جعلی لگتا ہے،پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو رہی ہے کیا یہ بندوق

کے زور پر نہیں ہو رہی؟ اگر اسلام بندوق کے زور پر ناروا ہے تو قانون بندوق کے زور پر کیسے روا؟۔آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے ملک کا جمہوری نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کمیٹی بنائی گئی جس کی توثیق آپ لوگوں نے کی تاہم میں نے پہلے دن سے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔انہوں نے کہاکہ اگر آپ نے ڈھیلے ڈھالے فیصلے کیے تو مارچ میں سینیٹ انتخابات کی صورت میں ان جعلی لوگوں (حکومت) کے ہاتھ میں سینیٹ کا ایک حصہ چلا جائیگا پھر آپ کہاں کھڑے ہوں گے اور ملک کہاں کھڑا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ‘ہم بڑی صراحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہیں کہ آج ہی فیصلہ کریں کہ ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے، اگر انہی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جہاں کوئی کارکردگی نہیں ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم شفاف الیکشن کے مقصد کے لیے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے سول سپریمیسی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہیں تو پھر آپ عوام کے صفوں کے جانے کے لیے آئیں، تاجربرادری، وکلا، اساتذہ، ڈاکٹروں، مزدوروں، کسانوں اورصں عت کاروں کے پاس جائیں اور ان کے سے کہیں ہم اکٹھیں لڑیں اور ہمیں قوت سے ان کو اپنی صفوں میں لانا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ نیب کے بارے میں نواز شریف کے خیالات سے متفق ہوں، جب 18 ویں ترمیم کے

لیے آئینی اصلاحاتی کمیٹی بنائی گئی تھی تو ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ ایک آمر جنرل پرویز مشرف کا بنایا ہوا ادارہ ہے، یہ ہمیشہ جمہوریت اور سیاست دانوں کے خلاف استعمال ہوگا اس لیے اس کو نکال دیں لیکن کس مصلحت کے لیے برقرار رکھا گیا آج تک پتہ نہیں چلا۔انہوں نے کہا کہ آج اپنے پورے نظآم کو دیکھیں، اسمبلی جعلی، وزیراعظم جعلی، سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد ہوا اور جو

کچھ ہوا میری زبان میں آج چیئرمین سینیٹ جعلی، پرسوں اقلیت کو اکثریت کہا گیا شاید وہاں کے ملازمین کو بھی گنا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس گنتی پر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ غلط ہوئی ہے، پارلیمنٹ کی اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بنا کر بل منظور کرلیا، اب تو مجھے اسمبلی کا اسپیکر بھی جعلی لگتا ہے۔انہوں نے کہاکہ جب پوری پارلیمنٹ جعلی ہوجائے، حکمران جعلی ہوں تو پھر

ہم وہاں کس لیے بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب ڈرامے وہاں ہوئے ہیں۔پارلیمنٹ میں قانون سازی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق جو قانون سازی ہورہی ہے یہاں رکے گی نہیں، آپ کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف بھی قرار داد آئے گی اور ایک دن اس پر دباؤ آئے۔ان کا کہنا تھا کہ اب پھنس چکے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے، ڈی

نیوکلیئرائزیشن کا آپ انتظار کریں گے، اپنی عیاشیوں کو زندہ رکھنے کے لیے غلام بننا کوئی زندگی نہیں ہے۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ‘پاکستان ہمارے لیے اول ہے، اس کی باعزت بقا ہمارے لیے اول ہے اور آئین کے مطابق ہمارا نظام چلنا چاہیے، کبھی صدارتی نظام کے لیے تجویز آتی ہے جبکہ ہم نے آئینی اصلاحاتی کمیٹی میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے

کاتعین کیا جائے۔آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق آئینی کمیٹی پر ہونے والے اتفاق پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق 4 چیزوں پراتفاق ہوا تھا اسلام، جمہوریت، وفاقی طرز حکومت اورپارلیمانی نظام پر، آئین کا ایک ستون بھی گرجاتا ہے آئین گرتا ہے پھر ایک آئین ساز اسمبلی کے تحت آئین دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ 70 برسوں سے جو چیزین طے شدہ

ہیں وہ دوبارہ کھل جائیں کیا ہم اس کا متحمل ہیں، اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میڈیا کو اتنا کمزور اور مقید کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے لاکھوں کے اجتماع اور ہماری تقاریر کو چینلوں میں دکھانے کے قابل نہیں رہے، ان کو باقاعدہ روکا جاتا ہے اور وہ رک جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں میڈیا سے شکوہ اپنی جگہ پر لیکن ہمیں ان کی مظلومیت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے

اور ان کی آزادی کے لیے بھی ایک مضبوط مؤقف لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بڑی ہمت کے ساتھ میگا پروجیکٹس کی طرف جارہا تھا، سی پیک، توانائی سمیت اور دیگر منصوبوں کی طرف جارہا تھا لیکن آج سب کچھ رک گیا ہے۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایک غیرملکی سفیر نے بتایا کہ پاکستان اور پاکستانی قوم میگا پروجیکٹس کی متحمل نہیں ہے لہٰذا ہمیں مائیکرو

اورمیڈیم سطح پر اکثر نو منصوبے شروع کریں گے، پھر انڈے اور کٹے ریاست کی پالیسیاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم زبانی گفتگو پر اکتفا نہیں کرسکتے کہ آپ ہمیں کہیں کہ ہم لڑیں گے اورپیچھے نہیں ہٹیں گے، آپ بہت پیچھے ہٹے ہیں، ان دو برسوں میں آپ ان کی بقا کا سبب بنے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب باقاعدہ لکھ کر طے کرنا ہوگا تاکہ ہم عوام کو دکھا سکیں اورجو اس سے پیچھے

ہٹتا ہے تو اس کو قومی مجرم تصور کیا جائے گا، اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اورپھر کمپرومائز کی طرف جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عملی اقدامات کی طرف جانا ہوگا، کمپرومائز کا راستہ بند ہوگا، آپ ہماری سیاسی تحریک کو مہمیز تو بخشتے ہیں لیکن جب آگے بڑھتے ہیں تو مصلحتیں سامنے آتی ہیں اور اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی یہ برقرار رہتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم ایک دوسرے

پر اعتماد کرکے کوئی تحریک چلاسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ اعتماد کیلئے بھی ہمیں مؤثر باتیں کرنی ہوں گی اور اس تجدید عہد کرنا ہوگا، ہمیں حلف اٹھا کر یہاں سے نکلنا ہوگا، تحریری میثاق یہاں لکھنی ہوگی، اگر ہم چاہتے ہیں تو ہمارا ایک تنظیمی ڈھانچہ اوراپوزیشن کا ایک نام ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تمام قانون سازی، غیر منتخب اور غیرآئینی حکومت کے تمام بین الاقوامی معاہدوں

سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ پیسہ دہشت گردوں کے پاس جاتا ہے تو میرے خیال میں اس پیسے کا بھی راستہ بند ہونا چاہیے جو ریاستی دہشت گردی کے حق میں چلاجاتا ہے۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ اگر آپ مضبوط فیصلہ کر اسمبلیوں سے استعفے دینے، سندھ کی صوبائی اسمبلی

کو تحلیل کرنے اور ایک بھرپور سیاسی تحریک جس میں پارلیمنٹ میں قانون سازی سے اظہار لاتعلق ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں بہتر توقعات ہیں اور امید ہے آپ پوری قوم کی حوصلہ افزائی کریں گے۔کانفرنس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، نیر بخاری،

نوید قمر،شیری رحمٰن، فرحت اللہ بابر، نفیسہ شاہ و دیگر بھی موجود تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے وفد نے پارٹی صدر شہباز شریف کی قیادت میں کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کی، وفد میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، خواجہ آصف، احسن اقبال، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، امیر مقام اور مریم اورنگزیب شامل تھیں۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…