اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اپنے کورٹ رپورٹنگ کے تجربے کو شیئر کرتے ہوئے صحافی ثاقب بشیر نے اپنے ٹویٹرپیغامات میں لکھا کہ گزشتہ دنوں آبروریزی کے ایک ملزم کی ضمانت کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہوا جہاں اسلام آباد میں ایک درندہ صفت والد نے
اپنی دو بیٹیوں کی آبروریزی کی ، ماں نے کیس کردیا ،بیٹیوں نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا، میڈیکل میں بھیسب کچھ ثابت ہو گیا والد کی ضمانت مسترد ہو گئی پھر اس والد نے بیٹیوں اور ماں کے ساتھ پریشر ڈال کر صلح کرلی ، صلح کی بنیاد پر والد نے دوبارہ درخواست ضمانت دائر کی ،درخواست میں میں صلح نامہ ساتھ لگایا لیکن ماتحت عدلیہ کے جج نے صلح کے باوجود اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے یہ لکھ کر ضمانت مسترد کر دی کہ معاشرے کا گھنائونا ترین جرم ہے میڈیکل میں بھی ثابت ہو گیا اس لیے ایسا ملزم ضمانت کا مستحق نہیں ، جس کے بعد درخواست ضمانت لیکر وہ والد اپنے وکیل کے ذریعے ہائی کورٹ پہنچا ، کورٹ نے پوچھا کیا ایسا شخص صلح کر کے ریلیف لینے کا مستحق ہے؟ سرکاری وکیل نے بھی ضمانت کی مخالفت کی ، عدالت عالیہ نے بھی اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے ضمانت مسترد کی اور ٹرائل جلد مکمل کرنے کا حکم بھی دیدیا ۔