پاکستان میں اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئرکالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’نظاموں کا قبرستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ہم نے تین ایسے صدور بھی دیکھ لیے جو صدر بھی تھے اور آرمی چیف بھی‘ ہم نے تین ریفرنڈم بھی کرا لیے اور ہم نے پارلیمانی نظام بھی چیک کر لیا‘ ماشاءاللہ ہم 73برسوں میں سارے نظام ٹیسٹ کر چکے ہیں بس ریاست مدینہ اور بادشاہت باقی ہے
اور یہ حکومت اگر اسی طرح چلتی رہی تو ہم بادشاہ معظم‘ ظل الٰہی‘ سلطان اور خلیفہ بھی دیکھ لیں گے اور ہم ان شاءاللہ بھنگ کی کمائی سے اسلام کی نشاة ثانیہ بھی فرما لیں گے اور غلام اور خلیفہ اور بکری اور شیر دونوں ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہوں گے‘ کھانا ظاہر ہے ان کے نصیب میں نہیں ہوگا۔میرا سوال یہ ہے گورنر جنرل کا سسٹم ہو یا صدارتی‘ پارلیمانی اور بنیادی جمہوریت کا نظام ہویا پھر اسلامی سوشلزم ہو یہ سارے نظام دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں موجود ہیں اور یہ وہاں ٹھیک ٹھاک کام بھی کر رہے ہیں لیکن یہ سارے سسٹم پاکستان میں فیل ہو گئے‘ کیوں؟ کیوں کہ غلطیاں نظاموں میں نہیں تھیں‘ ہم میں تھیں‘ دھند آئینوں میں نہیں تھی ہماری آنکھوں میں ہے اور ہمیں بہرحال کسی نہ کسی دن یہ ماننا ہوگا انسان اگر کام نہ کرنا چاہے تو فرشتوں کا سسٹم بھی فیل ہو جاتا ہےاور ہم اگر کچھ کرنا چاہیں تو دنیا کے ناکام ترین نظام سے بھی پھول اور پھل نکلنے لگتے ہیں لیکن ہم اپنے اوپر توجہ دینے کی بجائے نظاموں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں‘ ہم عینکیں بدل بدل کر خود کو مطمئن کر رہے ہیں چناں چہ ہم ایک بار پھر کیلے پر پاؤں رکھ رہے ہیں اور نتیجہ اس بار بھی وہی نکلے گا جو پچھلی پھسلن کا نکلا تھا‘ ہم ایک بار پھر ہڈیاں تڑوا کر واپس آ جائیں گے۔یہ باتیں اب زیادہ ڈھکی چھپی نہیں رہیں ‘وزیراعظم کے احباب انہیں مشورہ دے رہے ہیں ساری خرابیاں پارلیمانی نظام کی دین ہیں۔یہ سسٹم ان پڑھوں‘ ناتجربہ کاروں‘نالائقوں اور کرپٹ لوگوں کو اوپر لے آتا ہے‘ یہ لوگ حلقوں کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں‘
یہ الیکشن لڑنا اور جیتنا جانتے ہیں چناں چہ یہ سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کر کے ٹکٹ لے لیتے ہیں اور پھر یہ اسمبلیوں میں گروپ بنا کر وزارتیں لے لیتے ہیں اور وزیراعظم ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہتے ہیں‘ یہ احباب عمران خان کو بار بار بتا رہے ہیں لوگوں نے 2018ءمیں صرف عمران خان کو ووٹ دیے تھے‘ عوام دوبارہ عمران خان کو ووٹ دیں گے چناں چہ خان صاحب کو اگلے الیکشنز سے پہلے ان بلیک میلر ز کا مافیا توڑنا ہو گا اور یہ صرف صدارتی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔