اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’کیا ہم اس کریکٹر کے ساتھ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ جمعہ کے دن صبح کی نماز حضرت امام حسینؓ نے ادا کی‘ (بعض روایات کے مطابق ہفتہ کا دن تھا) ‘ آپ کے ساتھیوں میں بتیس سوار اور چالیس پیدل تھے‘حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے ‘ آپؓ نے قرآن کریم اپنے سامنے رکھ لیا‘ آپؓ کے صاحبزادے علی بن حسین
(حضرت زین العابدین) بیمار اور کمزور تھے‘ وہ بھی جنگ کےلئے تیار ہوئے لیکن آپؓ نے ان کو روک دیا‘ حضرت امام حسینؓ دشمن کے سامنے پہنچے توآپ انہیں یاد دلانے لگے ‘ لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں‘ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو‘ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں؟ کیا سیدالشہداءحضرت امیر حمزہؓ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارؓ میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ ﷺکا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا ‘ یہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے تو بتاو¿ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ حر بن یزیدکے دل پر اس تقریر کا اثر ہوا‘ وہ دشمن کی صفوں سے نکل کر آپؓ سے مل گئے‘ شمر آگے بڑھا اور حضرت امام حسینؓ کے رفقاءپر حملے شروع کر دیئے ‘ آپؓ کے ساتھی آپؓ کے سامنے جنگ کرتے رہے ‘ آپؓ ان کےلئے دعا کرتے رہے‘ وہ تمام آپؓ کے سامنے شہید ہو گئے ۔آخر میںشمر نے آواز لگائی” اب حضرت حسینؓ کی باری ہے‘ انتظار کس چیز کا ہے؟“ یہ آواز سن کر زرعہ بن شریک آپ ؓ کی
طرف بڑھا اور آپ کے شانہ مبارک پر وار کیاپھر سنان بن انس نے تیر چلایا جس سے آپؓ گر گئے‘ شمر آپؓ کی طرف بڑھا اور پیچھے سے وار کر کے سر مبارک تن سے جدا کر دیا‘ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اطہر کو دیکھا گیا تو اس پر نیزوں کے33 نشان تھے جبکہ دوسری ضربوں کے اس وقت 34 آثار تھے‘ حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ 72 جاں نثار شہید ہوئے‘
حضرت امام حسینؓ جس روز شہید ہوئے وہ عاشورہ جمعہ کا دن تھا‘ محرم کا مہینہ اور سنہ 61ہجری تھا‘ آپ کی عمر مبارک اس وقت 56 سال‘پانچ ماہ اور پانچ دن تھی۔ آپ ملاحظہ کیجئے ہم کریکٹر میں کس قدر کمزور ہیں‘ شمر کے لشکر نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اہل بیعت کے خیموں کو گھیرا اور اہل بیعت کا مال و متاع لوٹنا شروع کر دیا‘ آٹھ دس سال کی ایک چھوٹی سی بچی کے
ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے‘ ایک ظالم نے بچی کا بازو پکڑا اور کنگن اتارنا شروع کر دیئے‘ وہ کنگن اتارتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ روتا جاتا تھا‘ بچی نے روتے روتے اس سے پوچھا ”چچا میں تو نواسہ رسول کے غم میں رو رہی ہوں‘ تم کیوں رو رہے ہو“اس بدبخت نے جواب دیا ”میں جب آپ کے خیموں کو آگ سے جلتے دیکھتا ہوں‘
حضرت امام حسینؓ کا لاشہ دیکھتا ہوں‘ حضرت علیؓ شیر خدا کے خاندان کو کربلا کی ریت پر خون میں لت پت دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں ابل آتی ہیں“ بچی نے پوچھا ” پھر چچا آپ میرے کنگن کیوں اتار رہے ہیں“بدبخت نے جواب دیا ” میں یہ کنگن اس لئے اتار رہا ہوں کہ یہ اگر میں نہیں اتاروں گا تو یہ کوئی دوسرا اتار لے گا“