بدھ‬‮ ، 12 فروری‬‮ 2025 

کل کہیں ایسا نہ ہو جائے سارے عرب اسرائیل کو مان لیں اور اسرائیل ہمیں ماننے سے انکار کر دے، قائداعظم اگر زندہ ہوتے تو اسرائیل کے بارے کیا فیصلہ کرتے؟ معروف صحافی جاوید چودھری کا دعویٰ

datetime 27  اگست‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلا م آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا کہ پاکستان میں دو ہفتوں سے بحث چل رہی ہے کیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے علامہ اقبال اور قائداعظم اسرائیل کے خلاف تھے‘ یہ دعویٰ سو فیصد درست ہے بانیان پاکستان واقعی اسرائیل کے خلاف تھے لیکن دنیا میں ہر چیز کی کوئی نہ کوئی بیک گراؤنڈ ہوتی ہے اور ہم جب تک

وہ بیک گراؤنڈ نہ جان لیں ہم ایشوز کو نہیں سمجھ سکتے اور علامہ اقبال اور قائداعظم کی مخالفت کی وجہ ترکی اور خلافت عثمانیہ تھی۔برطانیہ نے 1948ء میں فلسطین پر اپنا قبضہ چھوڑ دیا اور یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے ملک بنا لیا‘ روس‘ امریکااور یورپ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا‘ ترکی نے بھی 1949ء میں اسرائیل کو مان لیا‘اب سوال یہ ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1949ء میں حیات ہوتے تو کیا وہ اپنے آپ کو”ری پوزیشن“ کرتے یا پرانے موقف پر قائم رہتے؟ میرا خیال ہے یہ بھی اپنی پوزیشن بدل لیتے۔اگر علامہ اقبال اور قائداعظم کی مثال ہی لے لیں تو ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“بھی علامہ اقبال نے لکھا تھا اور قائداعظم بھی 1920ء تک ہندو مسلم بھائی بھائی کے حامی تھے۔قائداعظم پہلے کانگریس کا حصہ تھے لیکن پھر حالات نے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو دو قومی نظریے کا داعی بنا دیا‘ یہ دونوں ری تھنکنگ پر مجبور ہو گئے۔ میرا خیال ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1950ء تک حیات ہوتے تو یہ بھی اسرائیل کے ایشو پر”ری تھنک“ ضرور کرتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ قدم انھوں نے ترکی کی محبت اور برطانیہ کی نفرت میں اٹھایا تھا اور برطانیہ نے 1948ء میں فلسطین چھوڑ دیا تھا اور ترکی نے 1949ء میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا۔ہم اگر ملک ہیں تو پھر ہمیں اپنی سفارت کاری پر توجہ دینی ہو گی‘ یہ کیا بات ہوئی ہم نے جن کے لیے اسٹینڈ لیا

وہ ہم سے سلام کے روادار ہیں اور نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے ہم سے مشورہ کرتے ہیں‘ کیا یہ زیادتی نہیں؟ ہم اسرائیل کو بے شک تسلیم نہ کریں لیکن اس کی وجہ خالصتاً ہم ہونے چاہییں‘ یہ کیا بات ہوئی ہم پہلے ترکی کی محبت میں انکار کرتے رہے اور آج ہم سعودی عرب کے پیچھے کھڑے ہیں۔ہم اگر آزاد ہیں تو پھر ہمارے فیصلے بھی آزاد ہونے چاہییں‘ ہم کب تک دوسروں کے لیلے یا بچھڑے بنتے رہیں گے؟ کل کہیں ایسا نہ ہو جائے سارے عرب اسرائیل کو مان لیں اور اسرائیل ہمیں ماننے سے انکار کردے‘ یہ اسلامی بم کی وجہ سے ایران اور ہم پر حملہ کر دے اور ہمارے سارے برادر ملک غیر جانب دار ہو جائیں‘ ایک لمحے کے لیے سوچیے گا ضرور کیوں کہ بات اسی طرف جا رہی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



صرف 12 لوگ


عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…