بدھ‬‮ ، 19 مارچ‬‮ 2025 

کل کہیں ایسا نہ ہو جائے سارے عرب اسرائیل کو مان لیں اور اسرائیل ہمیں ماننے سے انکار کر دے، قائداعظم اگر زندہ ہوتے تو اسرائیل کے بارے کیا فیصلہ کرتے؟ معروف صحافی جاوید چودھری کا دعویٰ

datetime 27  اگست‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلا م آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا کہ پاکستان میں دو ہفتوں سے بحث چل رہی ہے کیا پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے علامہ اقبال اور قائداعظم اسرائیل کے خلاف تھے‘ یہ دعویٰ سو فیصد درست ہے بانیان پاکستان واقعی اسرائیل کے خلاف تھے لیکن دنیا میں ہر چیز کی کوئی نہ کوئی بیک گراؤنڈ ہوتی ہے اور ہم جب تک

وہ بیک گراؤنڈ نہ جان لیں ہم ایشوز کو نہیں سمجھ سکتے اور علامہ اقبال اور قائداعظم کی مخالفت کی وجہ ترکی اور خلافت عثمانیہ تھی۔برطانیہ نے 1948ء میں فلسطین پر اپنا قبضہ چھوڑ دیا اور یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے ملک بنا لیا‘ روس‘ امریکااور یورپ نے اسے فوراً تسلیم کر لیا‘ ترکی نے بھی 1949ء میں اسرائیل کو مان لیا‘اب سوال یہ ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1949ء میں حیات ہوتے تو کیا وہ اپنے آپ کو”ری پوزیشن“ کرتے یا پرانے موقف پر قائم رہتے؟ میرا خیال ہے یہ بھی اپنی پوزیشن بدل لیتے۔اگر علامہ اقبال اور قائداعظم کی مثال ہی لے لیں تو ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“بھی علامہ اقبال نے لکھا تھا اور قائداعظم بھی 1920ء تک ہندو مسلم بھائی بھائی کے حامی تھے۔قائداعظم پہلے کانگریس کا حصہ تھے لیکن پھر حالات نے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو دو قومی نظریے کا داعی بنا دیا‘ یہ دونوں ری تھنکنگ پر مجبور ہو گئے۔ میرا خیال ہے اگر قائداعظم اور علامہ اقبال 1950ء تک حیات ہوتے تو یہ بھی اسرائیل کے ایشو پر”ری تھنک“ ضرور کرتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ قدم انھوں نے ترکی کی محبت اور برطانیہ کی نفرت میں اٹھایا تھا اور برطانیہ نے 1948ء میں فلسطین چھوڑ دیا تھا اور ترکی نے 1949ء میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا۔ہم اگر ملک ہیں تو پھر ہمیں اپنی سفارت کاری پر توجہ دینی ہو گی‘ یہ کیا بات ہوئی ہم نے جن کے لیے اسٹینڈ لیا

وہ ہم سے سلام کے روادار ہیں اور نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے ہم سے مشورہ کرتے ہیں‘ کیا یہ زیادتی نہیں؟ ہم اسرائیل کو بے شک تسلیم نہ کریں لیکن اس کی وجہ خالصتاً ہم ہونے چاہییں‘ یہ کیا بات ہوئی ہم پہلے ترکی کی محبت میں انکار کرتے رہے اور آج ہم سعودی عرب کے پیچھے کھڑے ہیں۔ہم اگر آزاد ہیں تو پھر ہمارے فیصلے بھی آزاد ہونے چاہییں‘ ہم کب تک دوسروں کے لیلے یا بچھڑے بنتے رہیں گے؟ کل کہیں ایسا نہ ہو جائے سارے عرب اسرائیل کو مان لیں اور اسرائیل ہمیں ماننے سے انکار کردے‘ یہ اسلامی بم کی وجہ سے ایران اور ہم پر حملہ کر دے اور ہمارے سارے برادر ملک غیر جانب دار ہو جائیں‘ ایک لمحے کے لیے سوچیے گا ضرور کیوں کہ بات اسی طرف جا رہی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)


قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس…

تیسری عالمی جنگ تیار

سرونٹ آف دی پیپل کا پہلا سیزن 2015ء میں یوکرائن…

آپ کی تھوڑی سی مہربانی

اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں…

وزیراعظم

میں نے زندگی میں اس سے مہنگا کپڑا نہیں دیکھا تھا‘…

نارمل ملک

حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ…

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…