اسلام آباد (آن لائن) وزارت پٹرولیم کی بڑی پٹرولیم کمپنی پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) میں اربوں روپے کا نیا سکینڈل سامنے آیا ہے۔ پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے اعلیٰ افسران نے قواعد وضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے (RAW)کچی گیس ایسی نجی کمپنیوں کو دی ہے جس کو پہلے وہ نان کوالیفائیڈ کرچکے تھے لیکن بعد میں خاموشی اور رات کی تاریکی میں ان کمپنیوں کو کم گیس پریشر والی
کچی گیس فروخت کردی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سکینڈل میں پی پی ایل کے اعلیٰ افسران نے اربوں روپے کی دیہاڑی لگائی ہے اور قومی دولت اونے پونے داموں فروخت کرکے اربوں روپے لوٹ لئے ہیں۔ ذرائع سے ملنے والی سرکاری دستاویزات میں اس بڑے کرپشن سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے تاہم پی پی ایل کے کرتا دھرتا اور ذمہ دار افسران اس سکینڈل پر اپنا موقف بھی دینے سے کترا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان سات کمپنیوں کو کم پریشر والی گیس پنجاب کے ایک کنویں سے جبکہ سندھ میں موجود چار کنوؤں سے گیس خاموشی کے ساتھ فروخت کی ہے اس سکینڈل کے سرغنہ ایم ڈی پی پی ایل معین رضا اور جنرل منیجر کمرشل ہیں جو کراچی میں کئی سالوں سے ادارہ میں براجمان ہیں اور کمپنی کے اثاثے بیچ کر اربوں روپے لوٹ چکے ہیں۔سرکاری دستاویز کے مطابق پی پی ایل نے پانچ کیوبک سے کم پریشر والی گیس کاٹینڈر نمبر HGSM/VP01-19 گزشتہ سال اپریل کو دیا تھا اور ٹیکنیکل بڈ کے کاغذات 24 اپریل 2019 کو اوپن کئے تھے کم پریشر والی گیس فروخت کرنے کیلئے کوٹری بلاک یاسرX-1، دوسری بشیرX-1 یالہ بلاک، تیسری این ایف لیور1نوشیرو فیرز بلاک، بناریX-1 شاہ بندر بلاک اور راولپنڈی کے ضلع میں ایک آئل بلاک سے یہ گیس فروخت کرنے کا ٹینڈر دیا جس میں کئی کمپنیوں نے اپنے ٹینڈرز دیئے جبکہ پی پی ایل کے اعلیٰ افسران نے متعلقہ شرائط پرپورا نہ اترنے والی کمپنیوں کو نااہل قرار دے دیا
لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد اب پی پی ایل کے انتظامیہ نے چبکے اور خاموشی کے ساتھ یہ اربوں روپے کی گیس اپنی من پسند کمپنیوں کو جن کو پہلے وہ نااہل قرار دے چکے تھے کو فروخت کرکے اربوں روپے کی دہاڑی لگائی ہے جب اس حوالے سے معین رضا سے ان کے آفس کرناچی میں رابطہ کیاگیا تو ان کی خاتون سیکرٹری نے کہا کہ وہ آفس میں موجود نہیں ہیں اور کہا کہ پیغام ان تک پہنچ جائے گا تاہم معین رضا نے اپنا موبائل نمبر 0300-2146353 بھی بند رکھا ہوا ہے یہ موبائل نمبر اس نے میڈیا کے لئے وقف کررکھا ہے لیکن یہ موبائل نمبر کال جاسکتی ہے اور نہ وہ جواب دیتے ہیں۔