راولپنڈی (آن لائن) محکمہ خوراک کی مبینہ ملی بھگت سے ضلع راولپنڈی کی فلور ملوں سے غیر معیاری آٹے کی سپلائی کے باعث شہر میں پیٹ اور گلے کی بیماریوں میں اضافہ ہونے لگا ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب کی جانب سے جاری 100کلو گندم میںآٹے کی معیاری شر ح کے مطابق 13 فیصد چوکر22فیصد فائن اور65فیصدآٹا ہونا لازمی ہے محکمہ خوراک کے ذرائع کے مطابق75فیصد فلور ملیں
اس سٹینڈرڈ کے مطابق آٹا بناتی ہی نہیں ہیںجس کی وجہ سے جڑواں شہروں کو میعاری اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق آٹا ملتا ہی نہیں ہے غیر میعاری اورمضر صحت آٹا کھانے سے شہریوں میں بیماریاں بڑھ رہی ہیںشہریوں کی زندگی سے کھیلنے والی فلور ملوں کو محض چند ہزار روپے جرمانہ کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ قیدو بند کی کوئی سزا متعلقہ قوانین میں شامل ہی نہیںجس کی وجہ سے مضر صحت آٹا بنانے والی فلور ملیں بلا خوف وخطر کام کر رہی ہیںمحکمہ خوراک کے ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب کی جاری سے100کلو گندم میںآٹے کی معیاری شر ح 13 فیصد چوکر22فیصدفائن اور65فیصد آٹاہونا لازمی ہے جبکہ صرف 25فیصد ملیںاس میعار کے مطابق آٹا بناتی ہیںجوہر آباد میں قائم لیبارٹری میںراولپنڈی سمیت دیگر اضلاع کی فلور ملوں سے بھیجے جانے والے آٹے کے75فیصد نمونے فیل ہوتے ہیںہر ماہ راولپنڈی کی116فلور ملوںکے بیشتر نمونے جوہر آباد پنجاب حکومت کی مقرر کردہ لیبارٹری بھیجے جاتے ہیں اکثریت اس میعار پر پورا نہ اترتے ہوئے منفی آنے پر محض ہزاروں روپے جرمانہ کر کے شہریوں کی صحت سے کھیلنے والی فلور ملوں کوکھلا چھوڑ دیا جاتا ہے قیدو بند کی کوئی سزا متعلقہ قوانین میں شامل ہی نہیں کی وجہ سے فلور ملز کو کوئی خوف ہی نہیں ہوتا غذائی ماہرین کے مطابق آٹے میں ملاوٹ جیسے سنگین جرم میں ملوث افراد اور فلور ملوں کو قید و بند جیسی سزائیں بھی دی جائیں کیوں کہ آٹا ہماری خوراک کا لازمی جزو ہے ناقص روٹی کی وجہ سے پیٹ کی شدید بیماریاں عام ہو رہی ہیں محکمہ خوراک چند ہزار روپے تک کی سزائیںکر کے اپنی اچھی کارکردگی کا ڈھنڈورہ پیٹتا دکھائی دیتا ہے۔