جمعرات‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2024 

’’دنیا ہمیں بدتمیز بھکاری کہتی رہتی ہے‘‘ ہم آخر مزید کتنی نسلیں برباد کریں گے، اگر ہم سمجھتے ہیں کہ عربوں کے بغیر سروائیو مشکل ہے تو پھر ہمیں کھل کر ان کا ملازم بن جانا چاہیے ، انڈیا کےسامنے جھکنے کا کہا جائے تو فوراً جھک جائیں ، اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑے تو پھر ہم کریں،ورنہ اگر نیوٹرل رہنا ہے تو پھر ہمیں کیا کرنا ہو گا ؟ جاوید چودھری نے کڑوی حقیقت سے آگاہ کر دیا

datetime 11  اگست‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ایک ہی بار ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔مثلاً ہم اگر واقعی یہ سمجھتے ہیں ہم عربوں کے بغیر سروائیو نہیں کرسکتے تو پھر ہمیںکھل کر ان کا ملازم ہوجانا چاہیے‘ عرب پھر ہم سے جو کچھ مانگیں ‘ ہمیں انہیں دے دیں‘ یہ اگر ایران‘ ترکی اور ملائیشیا یا قطر کے ساتھ لڑیں تو ہم ان کے لیے گولی بھی کھائیں اور لاشیں بھی اٹھائیںاور یہ اگر

ہمیں انڈیا کے سامنے جھکنے کا کہہ دیں تو ہم ایک لمحہ نہ سوچیں‘ ہم جھک جائیں اور ہم اگر نیوٹرل رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہم کسی کی ’’پراکسی وار‘‘کا حصہ نہ بنیں‘ ہم امریکا ‘یو اے ای‘ سعودی عرب‘ ایران‘ ترکی‘ افغانستان اور چین کو صاف بتا دیں ہم صرف اور صرف اپنا قومی مفاد دیکھیں گے‘ ہم آج سے کسی کے دوست‘ کسی کے دشمن نہیں ہیں اور پھر ہم ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہو جائیں‘ سعودی عرب ہم سے اپنے ساڑھے تین ارب ڈالر واپس مانگ لے یا یو اے ای اپنی رقم واپس لے لے یا خلیج کے سارے ملک پاکستانیوں کو نکال دیںیا ایف اے ٹی ایف ہم پر پابندیاں لگا دے یا پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیں امداد دینے سے انکار کر دے یا پھر ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑے تو پھر ہم کریں‘ ہمیں لڑنا پڑے تو ہم لڑیں‘ مرنا پڑے تو مریں‘آپ یقین کریں ہم دس پندرہ بیس پچاس سال میں گر پڑ کر ٹھیک ہو جائیں گے یا پھر ختم ہو جائیں گے۔ہم اِدھر یا اُدھر کم از کم عزت کے ساتھ زندگی تو گزاریں گے‘ یہ جو ہم روز ماموں کے انتظار میں دروازے کی طرف دیکھتے رہتے ہیںیا دنیا ہمیں بدتمیز بھکاری کہتی رہتی ہے کم از کم ہم اس ذلت سے تو نکل آئیں گے‘ یہ کیا بات ہوئی ہم جوتے بھی پالش کر رہے ہیں اور جوتے کھا بھی رہے ہیں‘ ہم دوسروں کے لیے جان بھی دے رہے ہیں اور دوسرے ہمیں برا بھی کہہ رہے ہیں‘ یہ کیا ذلت ہے؟ہمیں یہ بھی کلیئر کرنا ہو گا‘ ہمیں اگر کشمیر نہیں چاہیے تو پھر ہم کھلے دل کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کریں‘ اپنی کم زوری کا اعتراف کریں اور جو ملک بچ گیا ہے

ہم چپ چاپ اس کے لیے کام کریں‘ اس سے قوم کم از کم یوم استحصال اور یوم خاموشی جیسے دھوکوں سے تو نکل آئے گی اور اگر یہ ہمیں چاہیے تو پھر ہم لڑیں‘ کشمیر مل جائے تو شکر نہ ملے تو کم از کم عزت کی موت تو نصیب ہو جائے ‘ یہ روز کا مرنا جیناتو کم از کم بند ہو اور آخری بات ہم اگر جمہوریت پر واقعی یقین رکھتے ہیںتو پھر ہمیں کھلے دل سے عوام کو ووٹ کا حق دے دینا چاہیے‘ یہ جسے

چاہیں چن لیں اور وہ عوام کے لیے جو کرنا چاہے وہ کر لے اور ہم اگر جمہوریت کو اس ملک کے لیے سوٹ ایبل نہیں سمجھتے تو پھر ایک ہی بار کھل کر اس ملک میں تیس سال کے لیے مارشل لاء لگا دیں‘ہم ملک میں ایک ہی بار چینی‘ سعودی یا مصری نظام لے لیں تاکہ ہم کم ازکم کسی ایک کنارے پر تو لگیں‘

ہم کم از کم کالو کی طرح لائل پور کے ماموں کا راستہ دیکھنا تو بند کریں‘ ملک میںبرا ہی سہی لیکن استحکام تو آئے‘ ہم آخر کب تک کاغذ کی کشتیوں میں طوفانوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے‘ ہم کب تک خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے اور ہم آخر کب تک چہرے کی کالک مٹانے کے لیے آئینے رگڑتے رہیںگے‘ یہ اب بند ہو جانا چاہیے‘ ہم آخر مزید کتنی نسلیں برباد کریں گے!۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…