’’دنیا ہمیں بدتمیز بھکاری کہتی رہتی ہے‘‘ ہم آخر مزید کتنی نسلیں برباد کریں گے، اگر ہم سمجھتے ہیں کہ عربوں کے بغیر سروائیو مشکل ہے تو پھر ہمیں کھل کر ان کا ملازم بن جانا چاہیے ، انڈیا کےسامنے جھکنے کا کہا جائے تو فوراً جھک جائیں ، اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑے تو پھر ہم کریں،ورنہ اگر نیوٹرل رہنا ہے تو پھر ہمیں کیا کرنا ہو گا ؟ جاوید چودھری نے کڑوی حقیقت سے آگاہ کر دیا

11  اگست‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ایک ہی بار ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔مثلاً ہم اگر واقعی یہ سمجھتے ہیں ہم عربوں کے بغیر سروائیو نہیں کرسکتے تو پھر ہمیںکھل کر ان کا ملازم ہوجانا چاہیے‘ عرب پھر ہم سے جو کچھ مانگیں ‘ ہمیں انہیں دے دیں‘ یہ اگر ایران‘ ترکی اور ملائیشیا یا قطر کے ساتھ لڑیں تو ہم ان کے لیے گولی بھی کھائیں اور لاشیں بھی اٹھائیںاور یہ اگر

ہمیں انڈیا کے سامنے جھکنے کا کہہ دیں تو ہم ایک لمحہ نہ سوچیں‘ ہم جھک جائیں اور ہم اگر نیوٹرل رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہم کسی کی ’’پراکسی وار‘‘کا حصہ نہ بنیں‘ ہم امریکا ‘یو اے ای‘ سعودی عرب‘ ایران‘ ترکی‘ افغانستان اور چین کو صاف بتا دیں ہم صرف اور صرف اپنا قومی مفاد دیکھیں گے‘ ہم آج سے کسی کے دوست‘ کسی کے دشمن نہیں ہیں اور پھر ہم ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہو جائیں‘ سعودی عرب ہم سے اپنے ساڑھے تین ارب ڈالر واپس مانگ لے یا یو اے ای اپنی رقم واپس لے لے یا خلیج کے سارے ملک پاکستانیوں کو نکال دیںیا ایف اے ٹی ایف ہم پر پابندیاں لگا دے یا پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیں امداد دینے سے انکار کر دے یا پھر ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑے تو پھر ہم کریں‘ ہمیں لڑنا پڑے تو ہم لڑیں‘ مرنا پڑے تو مریں‘آپ یقین کریں ہم دس پندرہ بیس پچاس سال میں گر پڑ کر ٹھیک ہو جائیں گے یا پھر ختم ہو جائیں گے۔ہم اِدھر یا اُدھر کم از کم عزت کے ساتھ زندگی تو گزاریں گے‘ یہ جو ہم روز ماموں کے انتظار میں دروازے کی طرف دیکھتے رہتے ہیںیا دنیا ہمیں بدتمیز بھکاری کہتی رہتی ہے کم از کم ہم اس ذلت سے تو نکل آئیں گے‘ یہ کیا بات ہوئی ہم جوتے بھی پالش کر رہے ہیں اور جوتے کھا بھی رہے ہیں‘ ہم دوسروں کے لیے جان بھی دے رہے ہیں اور دوسرے ہمیں برا بھی کہہ رہے ہیں‘ یہ کیا ذلت ہے؟ہمیں یہ بھی کلیئر کرنا ہو گا‘ ہمیں اگر کشمیر نہیں چاہیے تو پھر ہم کھلے دل کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کریں‘ اپنی کم زوری کا اعتراف کریں اور جو ملک بچ گیا ہے

ہم چپ چاپ اس کے لیے کام کریں‘ اس سے قوم کم از کم یوم استحصال اور یوم خاموشی جیسے دھوکوں سے تو نکل آئے گی اور اگر یہ ہمیں چاہیے تو پھر ہم لڑیں‘ کشمیر مل جائے تو شکر نہ ملے تو کم از کم عزت کی موت تو نصیب ہو جائے ‘ یہ روز کا مرنا جیناتو کم از کم بند ہو اور آخری بات ہم اگر جمہوریت پر واقعی یقین رکھتے ہیںتو پھر ہمیں کھلے دل سے عوام کو ووٹ کا حق دے دینا چاہیے‘ یہ جسے

چاہیں چن لیں اور وہ عوام کے لیے جو کرنا چاہے وہ کر لے اور ہم اگر جمہوریت کو اس ملک کے لیے سوٹ ایبل نہیں سمجھتے تو پھر ایک ہی بار کھل کر اس ملک میں تیس سال کے لیے مارشل لاء لگا دیں‘ہم ملک میں ایک ہی بار چینی‘ سعودی یا مصری نظام لے لیں تاکہ ہم کم ازکم کسی ایک کنارے پر تو لگیں‘

ہم کم از کم کالو کی طرح لائل پور کے ماموں کا راستہ دیکھنا تو بند کریں‘ ملک میںبرا ہی سہی لیکن استحکام تو آئے‘ ہم آخر کب تک کاغذ کی کشتیوں میں طوفانوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے‘ ہم کب تک خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے اور ہم آخر کب تک چہرے کی کالک مٹانے کے لیے آئینے رگڑتے رہیںگے‘ یہ اب بند ہو جانا چاہیے‘ ہم آخر مزید کتنی نسلیں برباد کریں گے!۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…