اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوھردی اپنے کالم ’’بند مینجمنٹ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ بے شمار لوگ لیتے ہیں‘ یہ سہرہ ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے سر پر باندھتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق بھی اور میاں نواز شریف بھی‘
ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی دعوے دار ہیں لیکن دنیا کی پہلی اسلامی نیو کلیئر پاور کا اصل کریڈٹ غلام اسحاق خان کو جاتا ہے‘ یہ اگر نہ ہوتے تو ہم شاید آج نیو کلیئر پاور نہ ہوتے‘ غلام اسحاق خان کون ہیں؟ آج کی نسل ان کے نام ہی سے واقف نہیں ہو گی۔غلام اسحاق خان سول سرونٹ تھے‘ پاکستان بننے سے پہلے سول سروس جوائن کی ‘ مجسٹریٹ سے ترقی کرتے کرتے وفاقی سیکریٹری بنے‘ چیئرمین سینیٹ ہوئے اور آخر میں صدر پاکستان بن گئے‘ یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے روح رواں بھی تھے‘کہوٹہ پلانٹ سے لے کر چاغی کی اس ٹنل تک جس میں پاکستان نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تمام اینٹیں غلام اسحاق خان کی مرضی اور دستخطوں سے لگی تھیں‘ یہ ایٹمی پروگرام کے مالیاتی امور دیکھتے تھے اور اس میں انھوں نے کسی سیاسی مجبوری کو آڑے نہیں آنے دیا۔مسافر کی غلام اسحاق خان سے صرف ایک ملاقات تھی‘ یہ 1993 میں صدارت سے فارغ ہونے کے بعد پشاور چلے گئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام اسی شہرمیں گزار دیے‘