کراچی (آن لائن)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی آئی میں بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی ایما پر بجلی کی قیمت میں اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے۔دگر گوں معاشی حالات کے باوجود توانائی کی قیمتوں میں اضافہ عوام اور کاروباری برادری کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہو گا
اس لئے حکومت آئی ایم ایف کے احکامات کی بجاآوری کے مضمرات پر سنجیدگی سے غور کرے۔نیپرا اعداد و شمار کا کھیل کھیلنے کے بجائے عوام کو حقیقی ریلیف دے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ مالی سال 2018 میں ملک میں 121 ارب یونٹ بجلی پیدا کی گئی جو 2019میں 122.7 ارب یونٹ اور 2020 میں 122 ارب یونٹ رہی جس سے پتہ چلتا ہے کہ بجلی کی طلب میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور ملکی ترقی کے دعووں میں کتنی سچائی ہے۔بجلی کی طلب ساکن اور بلا نمو ہے جس میں اضافے کے لئے اسکی قیمت کم کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ بڑھانے کی۔انھوں نے کہا کہ ڈیمز کے ذریعے بجلی کی پیداوار کل پیداوار کے 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس میں اضافہ ضروری ہے کیونکہ درآمد شدہ مہنگے ایندھن سے بجلی کی پیداوار ملکی مفادات کے خلاف ہے۔پن بجلی کی پیداور میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فرنس آئل سے بجلی کی پیداور30 فیصد سے گھٹ کر3 فیصد رہ گئی ہے جسے درآمد شدہ کوئلے کے ذریعے بجلی بنا کر پورا کیا گیا ہے۔بجلی کی پیداوار کے لئے ملک میں موجود کوئلے کے بجائے درآمدات کرنا حیران کن ہے۔عالمی منڈی کے مقابلے میں قطر سے مہنگی آر ایل این جی خریدی جا رہی ہے اوراس سے بھی بجلی بنائی جا رہی ہے جسکی لاگت 10 روپے فی یونٹ ہے جبکہ کوئلے سے بننے والی بجلی پر لاگت 6 روپے فی یونٹ ہے۔حکومت نے انرجی مکس کو بہتر بنایا ہے جسکی وجہ سے مالی سال 2020 میں 6سو راب روپے کا ایندھن درآمد کرنا پڑا جو 2019 سے 10 فیصد کم تھا اور اگر روپے کی قدر میں زبردست کمی نہ کی گئی ہوتی تو فرق مزید بڑھ جاتا۔انھوں نے کہا کہ اگر نجی بجلی گھروں کو پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگیاں کرنے کا مسئلہ حل ہو جائے تو بجلی کا ٹیرف مزید کم ہو سکتا ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے گا جبکہ پیداوار اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔