اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)آج خطے کے حوالے سے اہم مذاکرات ہوں گے۔ مذاکرات کا انتظام روسی قیادت نے کیا ہے۔ آن لائن مذاکرات میں روسی، چینی اور بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر شریک ہوں گے۔سینئر کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم ’’ سرنڈرمودی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ جے شنکر کو بڑا مان ہے کیونکہ وہ سفارتکار رہ چکے ہیں مگر چینی وزیر خارجہ چینی مفاد سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے،
جیسا کہ اس سے پہلے چینی کمانڈر کر چکے ہیں۔بھارت، روس سے مذاکرات کی بھیک کے ساتھ ہی 35لڑاکا طیاروں کی خریداری کی بات بھی کر رہا ہے کیونکہ بھارتی ایئر چیف کا مطالبہ ہے کہ ہمیں کم از کم 35روسی لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلحے کی منڈی پھر سے آباد ہونے والی ہے، اس سلسلے میں آپ چند سال پہلے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی طرف سے دیے گئے بیان کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ’’امریکہ کی اصل طاقت امریکہ کے اندر نہیں، امریکہ سے باہر ہے‘‘۔ امریکی پالیسی ساز جنگوں کو امریکی سرحدوں سے دور رکھ کر لڑتے ہیں۔ معاشی طور پر طاقتور مسلمان ملکوں سے تو باقاعدہ بھتہ لیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے امریکیوں نے ایشیا کی بڑی معیشتوں پر غور کیا تو انہیں چین، روس اور بھارت نظر آئے۔ ان ملکوں میں اقلیتوں کا حساب لگا کر پراکسی وار کے منصوبے ترتیب دیے گئے۔ دو مسلمان ملکوں کو بیس کیمپ بنایا گیا اس لئے کہ جتنے مسلمان بھارت میں ہیں قریباً اتنے ہی چین میں ہیں۔ روسی فوج میں تو آج بھی 41فیصد تاتاری ہیں۔روس اور چین کے خفیہ اداروں نے تو قابو پا لیا مگر را فیل ہو گئی۔ بھارت کی کئی ریاستوں میں پراکسی وار کے دوران امریکیوں نے بھارت پر ہاتھ رکھا، کئی سالوں تک افغان زمین اس لئے دیے رکھی کہ وہ پاکستان کے خلاف جو کرنا چاہے کرے۔ منصوبہ بندی میں اسرائیل بھی شامل تھا اسرائیلی فوجی کئی سالوں سے بھارتی فوج کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔یہ ٹریننگ نہتے کشمیریوں کے لئے ظلم جبکہ چینیوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ انڈیا نے امریکی شہ پر لداخ سمیت کئی علاقوں میں سڑکیں اور ایئر بیس بنانا شروع کیں تو چین کو پوری سمجھ آگئی۔