اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’نوچ نوچ کر ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ پوری دنیا میں فضائی سفر کو محفوظ ترین سفر سمجھا جاتا ہے‘ سال سال گزر جاتا ہے لیکن دنیا میں کوئی فضائی حادثہ نہیں ہوتا‘ دنیا میں 42 ایسی ائیر لائینز ہیں جن کا آج تک کوئی طیارہ کریش نہیں ہوا‘ آسٹریلیا کی ائیر لائین کانٹاس کا 1951ء سے کوئی ائیر کریش نہیں ہوا‘ ہوائین ائیر لائین 1929ء میں بنی‘
آج تک کوئی حادثہ نہیں ہوا‘ برٹش ائیر ویز کا آخری حادثہ 1985ء میں ہوا تھا‘ ورجن ائیر لائین 1984‘ ریان ائیر لائین 1985ء‘ ایمریٹس1985ء‘ ایزی جیٹ 1995ء‘ اتحاد 2003ء اور قطر ائیر ویز 1993ء میں بنی اور آج تک ان کا کوئی فضائی حادثہ نہیں ہوا جب کہ پاکستان میں 72 برسوں میں 83 فضائی حادثے ہو چکے ہیں۔پی آئی اے کے اب تک 21 جہاز کریش ہو چکے ہیں اور یہ ان حادثوں کی وجہ سے دنیا کی غیر محفوظ ترین ائیر لائینز میں شامل ہو چکی ہے لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘ ہم نے آج تک پی آئی اے کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی‘ ہمارے پاس صرف 32 جہاز ہیں جب کہ قطرائیرویز کے پاس 237‘ ایمریٹس کے پاس257ا ور اتحاد کے پاس 102طیارے ہیں‘ہم 32 طیارے نہیں اڑا پا رہے جبکہ ہم سے چند میل کے فاصلے پر یہ تینوں ائیرلائینز دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں‘ کیا ہم صرف 32 طیاروں کو بھی حادثوں سے نہیں بچا سکتے؟ تف ہے ہم پر۔دنیا بھر کی ائیرلائینز کیوں محفوظ ہوتی ہیں؟ یہ صرف اور صرف عالمی ایس او پیز کا خیال رکھتی ہیں اور بس‘ کیا ہم میں اتنی بھی اہلیت نہیں؟ دنیا بھر میں ائیر پورٹس شہروں سے باہر اور پانی کے قریب بنائے جاتے ہیں تاکہ جہاز بھی آبادیوں پر نہ گریں اور یہ اگر رن وے پر سلپ ہو جائیں یا پائلٹ کو کریش لینڈنگ کرنا پڑے تو یہ جہاز کو پانی پر اتار لے‘آپ نے کبھی سوچا دنیا جہاں کی فلائیٹس میں تیرنے والی”لائف جیکٹس“ کیوں ہوتی ہیں؟ کیوں کہ تمام جہاز پانی پر اتارے جا سکتے ہیں چناں چہ مسافروں کو
ڈوبنے سے بچانے کے لیے ان کی سیٹوں کے نیچے لائف جیکٹس رکھ دی جاتی ہیں۔دنیا کے نوے فیصد فضائی حادثے لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران ہوتے ہیں چناں چہ پائلٹس کے پاس آپشن ہوتا ہے یہ جہاز کو پانی پر اتار لیں لیکن ہم نے پورے ملک میں کوئی ائیرپورٹ پانی کے قریب نہیں بنایا‘ ہمارا کراچی کا ائیر پورٹ بھی سمندر سے دور ہے چناں چہ ہمارے جہاز جب بھی گرتے ہیں یہ تمام مسافروں کو ساتھ لے جاتے ہیں‘
ہم یہ فیصلہ کیوں نہیں کر لیتے آئندہ ہمارے تمام ائیر پورٹس پانی کے قریب بنائے جائیں گے‘کیا ہم میں یہ فیصلہ کرنے کی اہلیت بھی نہیں؟ ۔پوری دنیا میں فضائی حادثوں کی تحقیقات کے کمیشن اور ادارے ہیں لیکن ہم نے آج تک کوئی ایسا ادارہ نہیں بنایا‘ ہم ہر حادثے کے بعد عارضی کمیشن بناتے ہیں‘ یہ کمیشن سال ڈیڑھ سال موجیں کرتا ہے اور پھر ڈھیلی ڈھالی سی رپورٹ دے کر گھر بیٹھ جاتا ہے‘ کراچی کے موجودہ حادثے کے بعد
بھی ائیر فورس کے چارافسروں کا کمیشن بنا دیا گیا‘ آپ بے حسی کی انتہا دیکھیے اس میں سول ایوی ایشن‘ پولیس اور سیکرٹ ایجنسی کا ایک بھی افسرشامل نہیں۔کمیشن کے کسی افسر نے آج تک مسافر طیارہ نہیں اڑایا اور یہ سول ایوی ایشن کے ایس او پیز سے بھی واقف نہیں ہیں چناں چہ ان کی رپورٹ کی کیا حیثیت ہو گی؟دوسرا حادثہ اگر کسی دہشت گردی یا سستی کا نتیجہ نکل آیا تو یہ کمیشن مجرموں کا تعین کیسے کرے گا‘
کیا اس کے پاس پولیس کے اختیارات ہیں‘ کیا یہ کسی مجرم کو گرفتار کر سکے گا؟ اگر نہیں تو کیا ہم حادثے کے تین چار ماہ بعد پولیس کو تحقیقات کا حکم دیں گے؟ اگر ہاں تو ان تحقیقات کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ ۔کیا ہم میں مستقل کمیشن بنانے کی اہلیت بھی نہیں؟ آپ بے حسی ملاحظہ کیجیے لاہور سے ڈی این اے کی ٹیم کراچی بلا لی گئی‘یہ ٹیم بائی روڈ کراچی پہنچ گئی تو سندھ حکومت نے اسے نمونے نہیں لینے دیے‘
کیوں؟ کیوں کہ سندھ حکومت پنجاب کو ڈی این اے کا کریڈٹ نہیں دینا چاہتی تھی لہٰذا لواحقین حادثے کے 11دن بعد بھی لاشوں کے لیے خوار ہو رہے ہیں‘کیا ہم میں اتنی سی کوآرڈی نیشن کی اہلیت بھی نہیں؟ ہمیں چار دن تک بلیک باکس نہیں ملا تھا‘ جب ائیر بس کی ٹیم نے بلیک باکس کے بغیر واپس جانے سے انکار کر دیا تو ہمیں مجبوراً بلیک باکس تلاش کرنا پڑ گیا۔کیا ہم وقت پر بلیک باکس بھی تلاش نہیں کر سکتے؟
ائیر بس نے حادثے کے 72گھنٹے بعد کرونا اور لاک ڈاؤن کے باوجود اپنی 11رکنی ٹیم کراچی پہنچا دی لیکن ہمارے وزیراعظم اور وزراء کوآج تک کراچی جانے کی توفیق نہیں ہوئی‘ آپ سول ایوی ایشن اور ائیرپورٹ سیکورٹی فورس کی تیاری بھی دیکھ لیجیے‘ طیارہ ان کے سامنے ڈول رہا تھا‘ اس کے اگلے پہیے نہیں کھل رہے لیکن کسی نے رن وے کو آگ سے بچانے کے لیے چھڑکاؤکیا اور نہ فائر بریگیڈ اور ایمرجنسی کا اعلان کیا‘ پورا سسٹم چپ چاپ طیارہ گرنے کا نظارہ کرتا رہا‘ کیا ہم میں یہ اہلیت بھی نہیں؟۔