اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ اللہ تیرا رحم ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔میرے ایک دوست بھی اس فلائیٹ میں موجود تھے‘ نہایت شان دار انسان تھے‘ یہ جوانی میں کراچی کی ایک پارسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے‘ والد سخت اور تگڑے تھے‘
وہ نہیں مانے‘ والدین کی مرضی سے ان کی شادی ہوگئی‘ خاتون بہت پڑھی لکھی‘ ذہین اور خوب صورت تھیں لیکن ان کا نبھا نہ ہوسکا‘ طلاق ہو گئی‘ دوسری شادی ہوئی‘ وہ بھی کام یاب نہ ہو سکی‘والد کا اس دوران انتقال ہو گیا‘ بیس سال بعد ان کا اسی پارسی خاتون سے رابطہ ہوا‘ وہ آج تک ان کا انتظار کر رہی تھیں۔یہ والدہ کے پاس گئے‘ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو راضی کیا‘ فیملی ان کی ضد کے سامنے ہار گئی‘ یہ خوش ہو گئے‘ یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی‘ فیصلہ ہوایہ کراچی آئیں گے‘ لڑکی کی فیملی سے ملیں گے اور عید کے بعد باقاعدہ شادی ہو جائے گی‘ یہ بھی 22 مئی کو لاہور سے کراچی روانہ ہو گئے‘ وہ پارسی لڑکی جس کا انہوں نے20 سال انتظار کیا تھا وہ انہیں پک کرنے کے لیے کراچی ائیر پورٹ آگئی لیکن یہ کراچی پہنچ کر بھی اس تک نہ پہنچ سکے‘ یہ سب کی پہنچ سے نکل گئے۔میں نے دو دن قبل اخبارات میں ان کی مغفرت کا اشتہار پڑھا‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ بے شک ہم سب اپنے رب کی مہلت کے محتاج ہیں‘ یہ جب سانس ڈھیلی کر دیتا ہے تو انسان گرتے ہوئے جہاز سے بھی سیٹ سمیت سلامت نکل آتا ہے اور یہ جب سانس کھینچ لیتا ہے تو پھر ہمیں اگلی سانس کی مہلت نہیں ملتی‘ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں ہمارے دل ہی میں منجمد ہوجاتی ہیں‘یااللہ تیرا کرم ہے‘ یا اللہ تیرا رحم ہے۔