اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار مظہر عباس اپنے کالم ’’کورونا کا رونا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔موت سے خوفزدہ انسانوں کی حرکتیں دیکھ کر ہنسی آتی ہے، ہمارے ارد گرد کیسے کیسے ڈرپوک بستے ہیں، کچھ بزدل تو اپنا ’’چہرہ‘‘ بھی نہیں چھوتے، میں جب بھی کسی کورونا وائرس کے شکار مریض کو دیکھتا ہوں تو اس کی حالت پر ترس آتا ہے اور جب دوسرے انسانوں کی حرکتیں دیکھتا ہوں
تو ہنسی آتی ہے۔دو روز پہلے ٹی وی پر ایک مریض کی ویڈیو دیکھی، اس ویڈیو میں مریض زندہ لاش کی صورت پیدل چل رہا ہے اور باقی انسان اس سے دور رہ کر ویڈیو اور تصاویر تو بنا رہے ہیں مگر کوئی بھی شخص سیلفی کا رسک نہیں لیتا، انسانوں کا یہ رویہ بڑا تکلیف دہ ہے، کل تک جس سے بہت محبت تھی، آج اس سے اتنی دوریاں؟کورونا سے ڈرے ہوئے امریکی سیاستدان ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملاتے بلکہ کہنیاں ملاتے ہیں، اگر ہمارے ہاں ایسا ہوتا تو کوئی نہ کوئی خاتون سیاستدان یہ الزام لگا دیتی کہ فلاں وزیر صاحب نے مجھے کہنی ماری ہے، برطانیہ میں فٹ بال کی ٹیمیں میچ شروع ہونے سے پہلے ایک اور ہی منظر دکھاتی ہیں۔تمام فٹ بالر ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کے بجائے پاؤں ملاتے ہیں، اگر کسی نے چوہدری شجاعت سے پاؤں ملایا ہوتا تو چوہدری صاحب برملا کہتے مینوں ٹھبی دتی جے۔ شمالی کوریا کے صدر نے تو کورونا کا رونا عجیب طریقے سے ختم کیا ہے جونہی شمالی کوریا میں کورونا کا مریض نظر آیا تو صدر صاحب نے حکم دیا کہ اسے کسی اسپتال لے جانے کی ضرورت نہیں بلکہ گولی مار کر کورونا مریض ہی کو ختم کر دو۔اب کورونا کا کوئی مریض بھی شمالی کوریا کا رخ نہیں کرے گا، بڑی بڑی باتیں کرنے والے مودی بھی ڈر گئے ہیں، انہیں کورونا سے اتنا ڈر لگتا ہے کہ وہ ہولی کے فنکشن میں نہیں جا رہے، دلّی فسادات میں پولیس کو کھلی چھٹی دینے والے
امیت شا بھی اپنے لیڈر مودی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، وہ بھی ہولی کی کسی تقریب میں شریک نہیں ہوں گے، مجھے بھارتی لیڈروں پر حیرت ہوئی ہے کیونکہ لیڈروں کا کام ڈرنا نہیں، لیڈر تو حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ایک صاحب سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی تو صاحب نے ہاتھ ہی نہیں ملایا، کورونا دنیا کے 80 سے زائد ملکوں میں پھیل چکا ہے، عالمی بینک نے اس سے
مقابلے کے لئے 12 ارب ڈالر مختص کئے ہیں، کئی ملکوں میں تعلیمی ادارے بند ہیں، 29 کروڑ بچے پڑھنے نہیں جا رہے، مغربی ملکوں میں خوف کی ایک لہر ہے۔رہے اسلامی ملک تو ان کی حالت بھی پتلی ہے، سعودی عرب نے پہلے غیر ملکیوں پر پابندی لگائی تھی کہ وہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے نہیں آ سکتے، اب سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو بھی روک دیا ہے، اب حرم اور مسجد نبویؐ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے،
کورونا کا کیا رونا ہے کہ اس وائرس نے عبادات پر بھی پابندی لگوا دی ہے۔تاجکستان میں مساجد کو بند کر دیا گیا ہے، جمعہ کے اجتماعات پر پابندی لگ گئی ہے، امریکی صدر نے کورونا وائرس بریفنگ میں ہنستے ہوئے کہا کہ ’’میں نے اپنے چہرے کو کئی ہفتوں سے ہاتھ نہیں لگایا‘‘ ایران میں کئی افراد اس وائرس کا شکار ہو کر موت کی وادی میں اتر چکے ہیں، ایرانی پارلیمنٹ میں کئی ممبران اس کا شکار ہیں،
چین میں چند ہزار افراد ہلاک ہوئے مگر اب چین میں مریض ٹھیک ہو رہے ہیں۔پاکستان میں احتیاطی تدابیر عروج پر ہیں، انتظامی لحاظ سے سب سے شاندار کام سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کیا ہے، باقی سب ان کی نقل کر رہے ہیں، اسلام آباد میں بھی روزانہ کورونا بریفنگ ہوتی ہے۔خواتین و حضرات! کورونا کے اس رونے میں مجھے سب سے زیادہ حیرت مسلمان ملکوں پر ہوئی ہے، مسلمانوں کے
اندر خوف کی لہر کیوں ابھری، مسلمان کا تو یہ ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں، موت کا ایک دن معین ہے، موت اپنے لمحے سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتی۔ ’’ہر ذی جان کو ایک دن جانا ہے، ایسے ہی مرحلوں پر باب العلم حضرت علی ؓ کا فرمان یاد آتا ہے کہ ’’موت، زندگی کا بہترین تحفظ کرتی ہے‘‘ کسی بھی بیماری یا وبا کے حوالے سے حضرت محمدﷺ کا یہ فرمان یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ
’’جس بھی علاقے میں کوئی بیماری یا وبا جنم لے، اس کا علاج اسی خطے کی کسی جڑی بوٹی میں ہوتا ہے‘‘ ۔‘‘کورونا کا علاج ووہان ہی سے ہونا چاہئے تھا یا پھر جنوبی ایشیائی خطے ہی سے کسی جڑی بوٹی پر ریسرچ ہونی چاہئے تھی، پاکستان میں کورونا وائرس کے علاج کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا، گھریلو حکیموں کی تعداد لاکھوں میں سامنے آئی، ہزاروں کی تعداد میں عالم دین بھی سامنے آئے،
پھونکوں والوں کے چراغ بجھ گئے۔ اور تو اور کئی بنگالی بابے میدان میں آگئے۔یہ بابے ایک عرصے سے ’’محبوب آپ کے قدموں‘‘ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ آغا خان اسپتال کراچی کے ڈاکٹروں کی ٹیم ہے جس نے بچاؤ کی تدابیر کی پوری ترکیب بنائی۔ یا پھر راولپنڈی کے ڈاکٹر خالد بٹ ہیں جنہوں نے کئی دنوں کی ریسرچ کے بعد اینٹی کورونا ریڈیانک کمپاؤنڈ تیار کیا ہے، حکومت ِ پاکستان ان سے مستفید ہو سکتی ہے۔علاج ضرور کریں مگر مسلمان ہونے کی حیثیت سے موت سے نہ ڈریں۔ یہ مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ بقول وصی شاہ ؎