اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )کورونا پھیل رہا ہے، اموات کا سلسلہ جاری ہے، تمام تر لاک ڈائون ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ کورونا کو مشترکہ جنگ کہا جا رہا ہے،اسے مشترکہ دشمن قرار دیا جا رہا ہے، کہا جا رہا ہے کہ مل کر کورونا کا مقابلہ کرنا ہے۔ ۔۔۔ سینئر کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم ’’ تم کیا مقابلہ کرو گے ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔خواتین و حضرات! انسانوں کو مقابلہ کرنا چاہئے، بیماریوں سے لڑنا چاہئے، یہ ان کا حق ہے،
اس سے پہلے بھی بیماریاں آئیں، وبائی امراض آئے، انسانوں نے مقابلہ کیا، وبائی امراض سے مقابلے میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے، شاید یہ لاکھوں افراد نہ مرتے، لاشوں کے ڈھیر نہ لگتے اگر انسان خدا کے بتائے راستوں پر چلتا تو شاید ایسا نہ ہوتا مگر انسان کہاں سمجھتا ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کتنے انسانوں نے زمینی خدا ہونے کا دعویٰ کیا مگر وہ زمین کا رزق بن گئے یا پھر عبرت کا نشان۔ خدا نے کتنے رسول بھیجے، کتنے نبیوں کو پیغام دے کر بھیجا مگر اکثریت غافل رہی۔ اکثریت نے پیغام حق کو جھٹلایا، انسان آپس میں جھگڑتے رہے، الجھتے رہے، طاقتوروں نے دوسروں کو کچلنے کی کوشش کی، انسان بددیانتی اور لالچ کرتے رہے، طرح طرح کی برائیاں ان کا شیوہ بنتی رہیں، اُنہوں نے خدائی پیغامات کا مذاق اُڑایا تو کبھی بچھڑے کو خدا بنا ڈالا، پتھروں کی پوجا، سورج دیوتا تو کبھی آگ کی پرستش۔ یہی انسانوں کا چلن رہا۔ کبھی کم تولنے پر عذاب آیا تو کبھی ہم جنس پرستی پر پتھر برسے۔ وقت بدلا مگر انسان نہ بدلا جن باتوں پر عذاب ملے، وقت بدلنے پر انسانوں نے پھر وہی کام شروع کر دیے۔قریباً ساڑھے چودہ سو برس قبل خالق نے یہ سلسلہ بھی ختم کر دیا، اپنے آخری رسولؐ کو بھیجا، آخری پیغام قرآن پاک کی صورت میں نازل کیا اور انسانوں کو بتا دیا کہ اب قیامت تک یہی کتاب ہدایت ہے، یہی راہِ ہدایت ہے اس میں زندگی کے تمام اصول بیان کر دیے گئے، اچھائیوں اور برائیوں کو تاریخ کی مثالوں سے واضح کر دیا گیا۔ انسانی تاریخ، زندگی اور مستقبل سے آگاہ کر دیا گیا، سب طور طریقے بتا دیے گئے مگر انسان بڑے عجیب ہیں، وقتی طور پر واہ واہ کرتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں، انسانوں کو طاقت پر ہمیشہ تکبر رہا۔
ابھی اللہ کے آخری رسولﷺ کے وصال کو صرف پچاس برس ہوئے تھے کہ انسانوں نے خالق کے آخری پیغام کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کو محمدؐ کے پیارے نواسےؓ نے لازوال قربانی سے ناکام کر دیا۔ پوری انسانی تاریخ میں خالق کے لئے مخلوق کی طرف سے دی گئی اتنی بڑی قربانی کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ آج تک کسی نے بھی خالق کیلئے اولاد سمیت خود کو قربان نہیں کیا۔ خدا کا دین بچ گیا،
وقت نے چلنا شروع کیا، انسان نے سائنسی ترقی شروع کی مگر فتوحات کے سلسلے پرانے رہے، لوٹ مار، اقتدار کی طوالت اور وسعت کے لئے سروں کے مینار بنائے جاتے رہے، پھر جنگیں عالمی جنگوں میں بدل گئیں، جب ہیروشیما، ناگا ساکی پر بم برسائے گئے تو پتا چلا کہ انسان اپنے جیسے انسانوں کو کیمیائی ہتھیاروں سے مارتے ہیں۔ ان جنگوں کا خاتمہ ہوا تو ایک اقوام متحدہ بن گئی۔ اس کے بعد ظلم نے لباس پہن لیا۔
ظلم کا طریقہ کار بدل گیا، غریب ملکوں کو لوٹنے کا عمل جاری رہا، اللہ کے دین پر چلنے والوں کی قتل و غارت جاری رہی، بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ مجبوراً ایک شامی بچے کو کہنا پڑا ’’میں سب کچھ اوپر جا کر خدا کو بتا دوں گا‘‘۔ ایک بچی کو کہنا پڑا ’’انکل میری وڈیو نہ بنائیں، میری تصویر بھی نہ بنائیں، میں نے حجاب نہیں پہن رکھا‘‘ پھر ایک فلسطینی بچے کو بولنا پڑا ’’مجھے جلد شہادت مل جائے تاکہ
میں جنت میں جا کر پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوں‘‘۔ افسوس ان تمام واقعات پر انسانوں کے ضمیر سوئے رہے۔ پھر کشمیریوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا اور مسلمان ملک اپنے کاروبار کی فکر کرتے رہے۔ یاد ہے نا کہ میانمار میں موت کیسے مسلمان نگلتی رہی۔ اب تم کورونا سے کیا لڑو گے، کہاں گئیں تمہاری سائنسی ترقیاں، اب کشمیری ہی نہیں تم سب گھروں میں بند ہو، اب صرف شامی اور فلسطینی بچے ہی نہیں تمہارے
بچے زندگی کی خوشیوں کو ترس رہے ہیں، تم حجاب کو برا سمجھتے تھے اب تم سب اہل حجاب ہو، تمہارا سلوگن تھا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ اب اُس کی قدرت، اُس کی مرضی۔ تم ہم جنس پرستی کو جائز کہتے تھے، تم ہر ظلم کو جائز قرار دیتے تھے، تم نے سرزمین حجاز پر کلب کھول دیے تو پھر حرم کے دروازے بند کرنا پڑے۔ تمہیں منع کیا گیا تھا مگر تم سود کا کاروبار کر کے اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرتے رہے۔
امریکہ میں شرح سود صفر ہے،سعودی عرب میں سوا دو فیصد جبکہ تمہارے پاکستان میں ساڑھے بارہ فیصد ہے،کورونا کے باوجود انسانوں کا تکبر اب بھی نہیں مرا۔ وہ مجبور لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو وڈیو اور تصویریں بناتے ہیں۔ اب تم لاکھ لاک ڈائون کرو، تم ہزار قرنطینہ میں چلے جائو، جب تک خالق سے معافی نہیں مانگو گے تم مقابلہ نہیں کر سکتے، تم کیا مقابلہ کرو گے تمہارا نمرود ایک مچھر کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا مگر انسان سمجھے تو بقول محسن نقوی ۔۔۔اداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا