اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ایک فرمان ہے کہ ’’علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جانا پڑے‘‘ میں اکثر سوچتا تھا کہ اِس فرمان میں ایران، روم اور افریقہ کا تذکرہ کیوں نہ کیا گیااور آخر چین ہی کا کیوں فرمایاگیا۔ وقت گزرتا رہا اور بالآخر وقت انسانوں کو اس موڑ پر لے آیا کہ چینی ماہرین سب سے آگے نکل گئے، چین کی مہارت نے سب کو مات دے دی۔۔۔۔سینئر کالم نگار مظہر برلاس اپنے گزشتہ کالم ’’چینی ماہرین آگے نکل گئے‘‘
میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔اسرائیلی اخبار کے دعوے سے قبل میں چند روز پیشتر لکھے گئے ایک کالم کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ چند روز قبل اس خاکسار نے آپ کو بتایا تھا کہ کس طرح کہاں کہاں اس منحوس کورونا کی تیاری ہوئی اور کون سے تین اہم ملک اس میں ملوث ہیں، اس کی فنڈنگ کس نے کی، آج میں وہ پوری تفصیل تو نہیں لکھ رہا مگر یہ ضرور لکھ رہا ہوں کہ آج کورونا کو تیار کرنے والے وہ تین ممالک کیوں پریشان ہیں، ان کی یہ پریشانی کیسے بڑھ گئی، چینیوں نے انہیں کیسے پریشان کر کے رکھ دیا۔اسرائیلی وزیر صحت اور وزیر دفاع کی باتیں آپ کو بتا چکا ہوں، اب اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور نیٹو ممالک کو امریکی خفیہ ادارے نے نومبر 2019ء کے آغاز میں بتا دیا تھا کہ چین میں وائرس پھیلنے والا ہے مگر آپ بےفکر رہیں۔ یورپی ممالک سے بھی پہلے امریکی خفیہ ادارے نے اسرائیل کو بتایا تھا مگر اب یہ سب ممالک پریشان ہیں، ان کے ماہرین موت کے سامنے بےبسی کی تصویر بن کے رہ گئے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ ابتدائی دنوں میں ٹرمپ بڑے خوش تھے، اب ان کی خوشی خاک میں ملتی نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے چینیوں کا بہت مذاق اڑایا اورکورونا کو چینی وائرس قرار دیا مگر اب ہر طرف پریشانیوں کے وسیع سلسلے ہیں۔ یہ سب کیسے ہو گیا۔ پہلے وہ خوش کیوں تھے اور اب وہ پریشان کیوں ہیں؟وہ خوش اس لئے تھے کہ انہوں نے آٹھ سال قبل یہ منحوس وائرس تیار کیا، علاج کے لئے ویکسین بھی تیار کی، کامیاب تجربہ بھی کر لیا۔ پھر یہ وائرس چین اس لئے بھیجا کہ وہ چین کی ترقی سے خائف تھے، وہ چین کو معاشی طور پر تباہ کرنا چاہتے تھے۔جب چین میں وائرس پھیلنا شروع ہوا تو وہ بہت خوش تھے مگر جونہی یہ وائرس یورپ اور امریکا پہنچا تو اس وقت بھی اطمینان تھا کہ ہمارے پاس تو علاج ہے
مگر جونہی وائرس لاعلاج بنا تو پریشانی بڑھ گئی، جونہی اپنی اسٹاک ایکسچینج گرنا شروع ہوئی تو پریشانی کے ساتھ حیرت بھی شروع ہو گئی کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟خواتین و حضرات! چین کے دشمنوں نے وائرس کا نشانہ چین کے سب سے بڑے صنعتی صوبے ووہان کو بنایا۔ چین کے بقول یہ وائرس امریکی فوجی یہاں لے کر آئے۔ چینیوں نے ووہان کو بند کیا، انہوں نے وبا سے متعلق جو سبق حدیث میں تھا،
اسی پر عمل کیا، انہوں نے ووہان کو بالکل بند کر دیا۔ کورونا سے ہلاک ہونے والے ایک مریض کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا۔ کورونا پر ریسرچ کی تو چینی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بایو ویپن ہے، اس ہتھیار سے دشمن چین کو زیر کرنا چاہتا ہے، چینی ماہرین نے ریورس ٹیکنالوجی کے ذریعے وائرس کو ڈی کوڈ کیا پھر اس پر نئے کوڈ لگا دیے۔ نئے کوڈ کے بعد چینیوں نے اس وائرس کو بیجنگ تو پہنچنے نہ دیا
البتہ اسے لندن اور نیو یارک سمیت دشمن کے کئی شہروں تک پہنچا دیا۔چین نے وائرس کے آغاز کے دنوں میں تمام ملکوں کو اس کے باسی واپس کر دیے، چین نے صرف پاکستان پر احسان کیا، انہوں نے پاکستانی طالب علموں کو واپس نہ بھیجا، نہ ہی کسی پاکستانی تاجر کو واپس آنے دیا، پاکستان میں مظاہرے بھی ہوئے، عدالتوں میں بھی یہ معاملہ گیا مگر چین نے پاکستانی حکومت کو سمجھا دیا۔ سو اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
پاکستان میں جتنا بھی کورونا آیا، وہ چین سے نہیں آیا۔ وہ ایران، سعودی عرب، امریکا یا پھر یورپی ملکوں سے آیا ہے۔ایک اور بات آپ کو سننے کو ملی ہو گی کہ ووہان والے وائرس سے یہ کورونا وائرس تھوڑا سا مختلف ہے۔ اب دنیا میں جو وائرس پھیلا ہوا ہے، یہ نئی کوڈنگ کے ساتھ ہے۔ امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے پاس جو ویکسین تیار ہے وہ کورونا وائرس کی پرانی کوڈنگ کے مطابق ہے۔
انہوں نے اب اس کو آزمایا تو وہ بےاثر نکلی پھر ان کے ماہرین نے کہا کہ کلوروکوین دی جائے، کلورو کوین کے حصول کی خاطر ٹرمپ نے انڈیا کو دھمکی بھی دی مگر افسوس جتنے مریضوں کو کلورو کوین دی گئی وہ جان کی بازی ہار گئے۔ اب جب ان کے پاس علاج نہیں ہے تو انہوں نے اس کا علاج صرف لاک ڈائون ڈھونڈا ہے، مگر کب تک؟ امریکا کے مختلف شہروں میں لاک ڈائون کے خلاف مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔
جب وائرس مغربی ملکوں میں آیا تو دو ہفتوں میں اسٹاک ایکسچینج بیس فیصد گری پھر ایک ہفتے میں مزید بیس فیصد گری اور پھر ایک دن میں دس فیصد گر گئی۔ اس صورتحال میں چینیوں نے یورپ اور امریکا کی بہت سی کمپنیاں سستے داموں خرید لیں پھر اسٹاک ایکسچینج کو ایک دن اٹھا کر نہ صرف اپنا نقصان پورا کر لیا بلکہ نفع بھی کما لیا۔اب صرف چین نفع کما رہا ہے۔ ادھر یورپ اور امریکا کے ماہرین کے
پاس اس کا علاج بھی نہیں، وہ وائرس کو ڈی کوڈ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں، یہ صرف چینی تھے جنہوں نے وائرس ڈی کوڈ کر کے نئی کوڈنگ کر دی، اب وہ اپنے دشمنوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں، دنیا عجیب ہے، جو علاج ہے اسے مان نہیں رہی، اس میں ڈبلیو ایچ او کا مافیا بھی حائل ہے۔