اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’اللہ رحم کرے ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔میں نے ان سے پوچھا ”آپ لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں“ وہ ہنس کر بولے ”ہم ملک کھولنا چاہتے ہیں“۔رات کا وقت تھا‘ مارگلا روڈ پر سناٹا تھا‘ اکا دکا گاڑیاں آ جا رہی تھیں‘ اپریل کا مہینہ اسلام آباد کے لیے ہمیشہ مہربان ہوتا ہے‘ جاتی سردیاں آتی گرمیوں میں گھل رہی ہوتی ہیں اور ان گھلتے
موسموں میں بہار کی خوشبو تیرنے لگتی ہے‘ خوشبو اس وقت بھی تیر رہی تھی‘ ہم فٹ پاتھ پر واک کر رہے تھے‘ کرونا کا خوف شہر کی تمام رونقیں نگل گیا تھا۔روڈ پر پولیس ناکوں اور سناٹے کے سوا کچھ نہیں تھا اور ہم اس سناٹے میں فٹ پاتھ پر چلتے چلتے جا رہے تھے‘ وہ سارا دن کابینہ کے اجلاس میں رہے تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ”وزیراعظم کیا کرنا چاہتے ہیں“ وہ ہنس کر بولے ”یہ لاک ڈاؤن ختم کرنا چاہتے ہیں‘ ملک کھولنا چاہتے ہیں“ میں نے پوچھا ”لاک ڈاؤن کب تک ختم ہو جائے گا“ وہ بولے ”یہ 14 اپریل کے بعد نرم ہونے لگے گا اور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا بس سکولز‘ کالجز‘ یونیورسٹیاں اور بڑے دفتر نہیں کھلیں گے‘ مارکیٹیں بھی جلد بند کرا دی جائیں گی“ میں نے پوچھا ”لیکن اس سے تو کرونا پھیل جائے گا“ وہ بولے ”ہمیں بھوک یا بیماری دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا اور حکومت نے بیماری قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ وزیراعظم سمجھتے ہیں ہم ساری آبادی کو گھر بٹھا کر نہیں کھلا سکتے چناں چہ ملک کھول دیں‘ جو بیمار ہوتے ہیں انہیں ہونے دیں‘ باقی کو کام کرنے دیں“ میں نے کہا ”لیکن اس سے تو بے شمار لوگ مر جائیں گے“ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ”ہاں لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں لہٰذا ہم سوچ رہے ہیں جو مرتا ہے اسے مرنے دیں باقی کو بچا لیں‘ لوگ بیمار ہو کر‘ مر مر کر خود ہی سمجھ دار ہو جائیں گے‘
یہ خود ہی پرہیز شروع کردیں گے‘ حکومت میں کیپسٹی نہیں“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں بھی خاموش ہو گیا‘ ہم دونوں بڑی دیر تک چپ چاپ چلتے رہے۔حکومت کی پالیسی کلیئر ہے۔یہ زیادہ دیر تک ملک بند نہیں رکھ سکے گی‘ یہ آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کھول دے گی‘ عوام چند دنوں میں گلیوں‘ بازاروں اور دفتروں میں ہوں گے‘ یہ آزادی ملک میں خوف ناک تباہی لے کر آئے گی‘ ہم اگر آج بھی ٹیسٹ کرنا شروع کر دیں
تو ملک میں کرونا کے دس بارہ لاکھ مریض نکل آئیں گے‘ یہ تعداد لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد کروڑ تک چلی جائے گی‘اگر قدرت نے اس دوران مہربانی فرما دی یا پھر یورپ اور امریکا نے وائرس کا کوئی حل تلاش کر لیا تو ہم بچ جائیں گے ورنہ ہمیں ذہنی طور پر تباہی کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔کل کا دن ہمارے لیے کیا لے کر آتا ہے یہ ہم کل پر چھوڑدیتے ہیں لیکن کرونا کی اس وبا نے دنیا میں چند نئے سٹینڈر ضرور سیٹ کر دیے ہیں‘
دنیا میں بے شمار نئے رجحانات اور ویلیوز سامنے آئی ہیں‘ مثلاً جاپان کرونا کا شکار ہونے والا تیسرا ملک تھا‘ چین کے بعد تھائی لینڈ میں مریض سامنے آئے تھے اور پھر جاپان میں دھڑا دھڑ مریض سامنے آنے لگے‘ دنیا میں سب سے زیادہ بزرگ جاپان میں ہیں‘ جاپان میں سو سال سے زائد عمر کے 70ہزار لوگ ہیں۔آپ ستر سے سو سال کے درمیان لوگوں کی تعداد کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ دنیا کا خیال تھا یہ
تمام لوگ انتقال کر جائیں گے لیکن نتیجہ حیران کن نکلا‘ جاپان میں صرف سات ہزار 3 سو 70مریض سامنے آئے اور 123ہلاکتیں ہوئیں‘ ملک بڑی تیزی سے کرونا سے ریکور بھی کر گیا‘ کیوں؟ وجہ دل چسپ ہے‘ جاپانی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ماسک پہنتے آ رہے ہیں‘ جاپانیوں کی عادت ہے یہ ماسک کے بغیر ہجوم میں نہیں جاتے‘ دوسرا یہ دوسروں سے ہاتھ نہیں ملاتے۔جھک کر ایک دوسرے کو سلام کر لیتے ہیں‘
تیسرا یہ جوتے لے کر گھروں میں داخل نہیں ہوتے‘ چوتھا‘ یہ جڑی بوٹیوں کا سوپ پیتے ہیں اور پانچواں یہ حکومت کی ہر وارننگ پر مذہب کی طرح عمل کرتے ہیں چناں چہ کرونا آیا اور جاپان کا کچھ بگاڑے بغیر واپس چلا گیا‘ دوسری مثال مراکو ہے‘ میں مراکش کے لوگوں کا مداح ہوں‘ ہمارا ہم خیال گروپ بھی مراکوجاتا رہتا ہے لیکن یہ لوگ اتنے سمجھ دار اور ڈسپلنڈ ہوں گے میں نہیں جانتا تھا‘آپ مراکو کا کمال دیکھیے۔ 2
مارچ 2020ء کو مراکو میں کرونا کا پہلا مریض دریافت ہوا‘ حکومت نے اس کے ساتھ ہی ہوٹلوں کے آٹھ ہزار کمرے آئسو لیشن روم بنا دیے۔پورے ملک کی گارمنٹس فیکٹریوں اور درزیوں کو ماسک بنانے پر لگا دیا‘ملک میں ہر شخص کے لیے ماسک لازم قرار دے دیا‘ ملک میں فری ماسک تقسیم کرا دیے‘ ملک بھر کے کلینکس کو کرونا کلینکس میں تبدیل کر دیا‘ طبی عملے کے لیے پٹرول اور فون فری کر دیا‘ فارما سوٹیکل کمپنیوں کے ٹیکس ختم کر دیے‘ بینک 24 گھنٹے کھول دیے‘ دن میں تین بار محلوں سے گند اٹھانا شروع کر دیا‘ ہر گلی کے موڑ پر فوج کے دو جوان تعینات کر دیے اور فارمیسیز 24 گھنٹے کھول دیں۔