اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ڈاکٹر امجد ثاقب جو فلاحی ادارہ اخوت چلاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں آپ کے سامنے ایک مختصر تجویز رکھنے جا رہا ہے یعنی این ٹو این موومنٹ یعنی نیبر ٹو نیبر موومنٹ (ہمسایہ ٹو ہمسایہ)۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ایک ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسائے سے مواخات کرے، بھائی چارہ کرے اور مشکل کی گھڑی میں اس کے دکھ اور درد میں شریک ہو جائے، یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم موجودہ کرائسز سے باہر نکل سکتے ہیں،
کیا ہی اچھا ہو اگر اس ملک کا ہر شہری بشمول وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ہر سیاسی رہنما اس تحریک کی رہنمائی کرے اور یہ تحریک گلی کوچوں میں پھیلے، ہر شہر قصبہ اور دیہات میں پھیلے اور پھر ہر ہمسایہ دوسرے ہمسائے کی خیریت کا ضامن بن جائے، اگر آپ توجہ سے سنیں گے تو یقیناً آپ کو خیر کی جھلک دکھائی دے گی۔ ڈاکٹر امجدثاقب نے مزید کہا کہ جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ ہم غیر معمولی حالات کا شکار ہیں ایسے حالات میں غیر معمولی لیڈر شپ اور غیر معمولی کریٹوآئیڈیاز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے ایک چھوٹے سے آئیڈیے پر کام کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت بڑی کامیابی دے دی۔ اس امر سے بھی کوئی انکار نہیں کرے گا، کوئی بھی حکومت کہیں بھی اتنے بڑے کرائسز کا مقابلہ اکیلے نہیں کر سکتی، کسی بھی ملک میں حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر ضرورت مند کے گھر جا کر اس کی مدد کر سکے۔ یہ کام صرف اور صرف کمیونٹی انگیجمنٹ اور کمیونٹی پارٹنر شپ اور کمیونٹی کی کوشش سے ہی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کمیونٹی کے لارجر کنٹیکسٹ میں ہمسائے سے ہمسائے کی مواخات کا تصور پیش کیا، انہوں نے اس تصور کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ این ٹو این موومنٹ ہمسائے کی ہمسائے سے یکجہتی کا اظہار ہے، محبت اور اخوت کا اظہار ہے، اگر ایک ہمسایہ رات کو سوتے وقت دوسرے ہمسائے سے پوچھ لے یا دیکھ لے کہ کیا وہ بھوکا تو نہیں، ضرورت مند تو نہیں تو یقین کریں کہ پاکستان میں کوئی شخص بھوک کا شکار نہیں ہوگا۔
ایک سادہ طریقہ ہے اللہ کے رسولؐ نے بھی یہی بتایا کہ اپنے ہمسائے کا خیال رکھیں اس کی ضروریات کو اپنی ضروریات سمجھیں، اگر وہ بھوکا پیاسا ہے تو ہم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتے ہمیں ایک این ٹو این موومنٹ کا آغاز کرنا ہو گا، ہمیں اپنے دائیں طرف دیکھنا ہو گا، بائیں طرف دیکھنا ہو گا، اور پھر یہ یقین کرنا ہوگا کہ کیا ہمارے ہمسائے کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں، یہ ہے این ٹو این موومنٹ کی پہلی سطح یعنی ہمسائے کی ہمسائے سے مواخات اور ہمسائے سے بھائی چارہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ این ٹو این کے بعد میں دوسری سطح کی بات کرتا ہوں یعنی ایم ٹو این یعنی موسٹ ٹو نیبر ہوڈ ریلیشن شپ، مسجد اسلامی معاشرے کا ایک اہم ادارہ ہے، ایک چھوٹے سے محلہ میں پانچ سات سو لوگ رہتے ہیں وہاں بنیادی ادارہ مسجد یا چرچ ہی ہے۔ جو ایک انسٹی ٹیویشنل فریم ورک مہیا کرتا ہے، پہلی سطح پر اگر کسی کی ضرورت این ٹو این سے پوری نہیں ہو رہی تو دوسری سطح یعنی ایم ٹو این سے پوری ہو گی، یعنی اس علاقہ کی مسجد میں سو دو سو راشن پیک پڑیں ہوں اور کوئی بھی شخص دیانتداری سے آ کر یہ راشن لے سکے،
مسجد کمیٹی کے اراکین جانتے ہیں کہ وہ شخص اس محلہ کا رہائشی ہے یا نہیں، نہیں جانتے تو وہ اس کے گھر جا کر دیکھیں کہ کیا وہ واقعی ضرورت مند ہے اور وہ واقعی کرونا کی وجہ سے بے روزگار ہوا ہے، یوں وہ راشن بیگ اس کو پیش کر دیا جائے گا۔ پندرہ دن یا ایک مہینے کا کھانا، یعنی وہ بات انفرادی ذمہ داری جو پہلی سطح سے چلی دوسری سطح پر آ کر اور زیادہ موثر اور شفاف ہو گئی ہے۔ یہ این ٹو این اور ایم ٹو این یعنی نیبر ٹو نیبر اور موسٹ ٹو نیبر ہوڈ کا تصور ہے۔ ایک اور تیسری تجویز بھی ہے لوکیلیٹی ٹو لوکیلیٹی مواخات یعنی ایک امیر محلہ یا بستی کا ایک غریب محلہ یا بستی سے مواخات،
اس کی وضاحت جو ہے امیر بستی کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو سارے ہمسائے خوشحال ہیں، ہم کس کے ساتھ مواخات کریں ان کے لئے درخواست ہے کہ ایسا ہر امیر آدمی دس، بیس، پچاس راشن بیگ بنائے، کسی غریب لوکیلیٹی کی مسجد میں جا کر مسجد کمیٹی کے حوالے کر دے۔ یوں ایک امیر لوکیلیٹی کی ایک غریب لوکیلیٹی کے ساتھ یکجہتی کا آغاز ہو جائے گا۔ پورے شہر میں اگر پانچ سو غریب یا کچی بستیاں ہیں تو وہاں پر بستیوں سے دس دس، بیس بیس، پچاس پچاس راشن بیگ پہنچنا شروع ہو جائیں گے میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہر شہر کی امیر اور غریب بستیوں کے درمیان روابط کی کمی ختم ہو جائے گی
اور وہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے وطن میں دو طرح کے وطن ہیں، دو طرح کے پاکستان ہیں، درمیان میں بے خبری کا ایک گہرا سمندر ہے تو یوں یہ سمندر بھی ختم ہو جائے گا۔ محبت کا ایک پل سا بن جائے گا اور ہم سب ایک دوسرے کے ساتھی بن جائیں گے۔ یہی مواخات کا تصور ہے اس تصور کے طفیل ایک اور طرح کا ماحول یعنی محبت اور اخوت کی کیفیت جنم لے گی، کوئی کمشنر، کوئی پٹواری کوئی پولیس کا آدمی بھی یا کوئی اور شخص شاید اکیلا ان مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتا، انفرادی اور اجتماعی سطح پر کمیونٹی پارٹسیپیشن اور کمیونٹی انگیج منٹ ہی ہمارے موجودہ مسائل کا حل ہے، ترقی اور غربت کے خاتمے کے ہر عمل میں کمیونٹی ہمیشہ نکتہ آغاز ہوتی ہے،
ایک فرد، چند افراد اور پھر تحریک اور کارواں، ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں بھی نچلی سطح پر بہت زیادہ منظم نہیں ہوتیں اور نہ ہی موجودہ حالات میں مقامی حکومتوں کا کوئی موثر ڈھانچہ موجود ہے، محلہ یونین کونسل یا شہر کی سطح پر کوئی موثر انتظامی طریقہ کار نظر نہیں آتا لوگ منتظر ہیں کہ کوئی شخص آگے آئے اور نعرہ لگائے کہ این ٹی این، ایم ٹو این اور ایل ٹو ایل یعنی نیبر ٹو نیبرہوڈ، موسٹ ٹو نیبر ہوڈ، لوکیلیٹی ٹو لوکیلیٹی کمیونٹی کی اس طرح کی پارٹیسیپیشن کے توسط سے حکومت کے پروگرام بھی نافذ کئے جا سکتے ہیں، حکومت جو بھی اچھا کام کرنا چاہتی ہے وہ بھی مسجد کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے، اور پھر اس میں بہت زیادہ اضافے کی بھی گنجائش ہے، میں ہر صاحب دل، ہر دانشور،
ہر عالمی دین، ہر صحافی اور ہر سیاست دان سے کہوں گا کہ وہ اس تجویز پر غور کرے اور دوسروں کو بتائے کہ غیر یقینی صورتحال میں ہمارا موجود نظام شاید مسائل کا حل نہیں بن سکتا، ہمارے انسٹی ٹیویشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان میں جان نظر نہیں آتی، ایسے میں ہمیں روشنی کہاں سے ملے گی، ہمیں دینی تعلیمات سے اپنے اداروں سے ان کے توسط سے ایک خوبصورت ماحول جنم لے گا اور ہم اس مشکل سے نکل سکیں گے، اس تمام تصور پر عملدرآمد بھی بے حد آسان ہے، اگر ہماری پولیٹیکل لیڈر شپ متحرک ہو جائے تو ہر ایم پی اے، ہر ایم این اے اپنے علاقے کی ایسی غریب بستیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور ان کی مساجد میں جا کر اس تجویز پر عمل بھی کر سکتا ہے، ان سیاسی نمائندوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ افسران کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، ہمارے اسسٹنٹ کمشنر اور حکومت کے دیگر نمائندے وہ بھی اپنے اپنے علاقہ کی مساجد کے ساتھ رابطہ کریں،
مثال کے طور پر ایک اسسٹنٹ کمشنر اپنے شہر کی پانچ یا دس ایسی مساجد کا انتخاب کرے جہاں پر زیادہ تر غریب اور مستحق لوگ آباد ہیں اور پھر حکومت کے علاوہ مخیر حضرات کے تعاون سے وہاں سو دو سو راشن بیگ مہیا کر دے، مسجد کمیٹی کی تربیت اور رہنمائی کرے، کیسے لوگوں کی شناخت کرنی ہے کیسے راشن تقسیم کرنی ہے اور کیسے شفافیت کو یقینی بنانا ہے اور پھر علمائے کرام بھی اس میں شامل ہو جائیں گے اور مخیر حضرات بھی شامل ہو جائیں گے، رضا کار تنظیمیں بھی آ جائیں گی تو عملدرآمد کا ایک شفاف اور متحرک نظام خود بخود وجود میں آنا شروع ہو جائے گا، سیاسی، دینی، سماجی لیڈر شپ، انتظامی افسران اور والنٹیئر آرگنائزیشن اس پورے نظام کے ساتھ مل جل کر مزید آگے بڑھا سکیں گے، میڈیا ان تمام تصورات کو عام کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، یہ سارا کچھ مسجد کو مرکز بنا کر اور مسجد کو سرچشمہ فیض سمجھ کر ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طریقے سے اس کام میں برکت آئے گی، شفافیت آئے گی اور ہم سب مل جل کر ایک قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر امجدثاقب نے آخر میں کہا کہ اس مشکل وقت میں ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے تو یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔ انشاء اللہ۔