اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی علی معین نواز اپنے کالم’’ کورونا کے چار منطقی انجام!‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔کورونا وائرس کے حوالے سے لاک ڈاؤن سے لے کر حفاظتی تدابیر تک بہت باتیں ہو چکی ہیں! تمام میڈیا اور پاکستانیوں کی توجہ اسی ایشو پر ہے، اور ہونی بھی چاہیے لیکن شاید خوف پھیلنے میں اِس بات کا بھی بڑا ہاتھ ہے کہ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ اِس سب کا اختتام کب، کیسے اور کس طرح ہوگا۔
اِس کالم میں اِس وبا کے 4 ممکنہ منطقی انجاموں پر بات ہو گی، جس میں چوتھا سب سے اہم ہے۔سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وائرس یا وبا کے زندہ رہنے کے لیے اس وائرس کی آگے منتقلی ضروری ہے۔ ایک شخص پر جب یہ وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی قوتِ مدافعت اسے مار دیتی ہے (اور 98فیصد تک کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے) یا پھر وائرس اس شخص کو مار دیتا ہے۔ لیکن دونوں صورت میں وائرس بھی مر جاتا ہے، اور اس کے زندہ رہنے کا واحد رستہ یہی ہے کہ وائرس اس شخص سے دیگر لوگوں میں منتقل ہو جائے۔نمبر 1، اگر ہم کچھ بھی نہ کریں تو وائرس تمام آبادی میں پھیل جائے گا۔ جس کی قوتِ مدافعت نے اِس کو مارنا ہے، وہ مار دے گی اور جس نے جان کی بازی ہارنی ہے وہ ہار جائے گا۔ یہ بدترین شکل ہوگی، اور اِس میں سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ ہمارا نظامِ صحت مریضوں کے بوجھ تلے دب جائے گا، بہر طور اِس صورتحال سے ہمیں بچنا ہے۔ کیونکہ اِس سے شاید یہ ماجرا جلد ختم ہو جائے لیکن قیمت بہت زیادہ ہے۔نمبر 2، ویکسین یا کوئی علاج۔ وائرس کا ابھی کوئی علاج موجود نہیں ہے اور ہم اپنے ہی جسم کی قوتِ مدافعت پر انحصار کرتے ہیں کہ یہ اِس کو ختم کرے اور اس سے ظاہر ہونے والی علامات کا علاج کرتے رہتے ہیں۔ ویکسین ہماری قوتِ مدافعت کی ٹریننگ کرتی ہے تاکہ وائرس جیسے ہی حملہ آور ہو، ہمارا جسم اسے ختم کر دے لیکن ویکسین آنے میں سال یا شاید اس سے
بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے لہٰذا کسی مخصوص علاج کی ابھی کوئی امید نہیں ہے۔ لیکن جب ویکسین بن جائے گی تو لوگوں کو ویکسین لگانے سے یہ مسئلہ بہت جلد ختم ہو جائے گا لیکن کیا ہم سال تک اِس کا انتظار کر سکتے ہیں؟ کیا یہ ماحول ایسے ہی برقرار رہ سکتا ہے؟نمبر 3، تاخیریا ڈیلے، ہمیں تمام احتیاطی تدابیر، سوشل ڈسٹینس یعنی لوگوں کے ساتھ کم سے کم رابطہ رکھنے کا اس لیے کہا جا رہا ہے تاکہ اول تو
ائرس نہ پھیلے اور اگر وائرس نے پھیلنا بھی ہے تو اِس کی رفتار اتنی آہستہ ہو کہ ہمارا نظامِ صحت اس کا مقابلہ کر سکے اور بالکل بےبس نہ ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگی بچائی جا سکے۔ پھر ایک ایسا وقت آ جائے گا کہ زیادہ تر لوگوں کی وائرس کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھ جائے گی۔ اِس طرح آہستہ آہستہ یہ ختم ہو جائے گا لیکن یہ اسٹرٹیجی بھی وقت طلب ہے۔نمبر 4، سب سے اعلیٰ معیار طریقہ، جس پر
ہم سب نے عمل کرنا ہے اور جو اس وقت قابلِ عمل ہے، یہ چین میں دیکھا گیا ہے۔ لوگوں نے اپنی ذمہ داری کا اِس حد تک احساس کیا اور حکومت نے اِس قدر کام کیا کہ وائرس کی منتقلی ایک شخص سے دوسرے تک تقریباً ختم ہو گئی اور چند روز پہلے ہی یہ بات سامنے آئی کہ ووہان جو درحقیقت اس وائرس کا بنیادی مرکز تھا، میں کوئی نیا کیس نہیں آ رہا۔ جس طرح کالم کے شروع میں کہا کہ وائرس اور وبا کے زندہ رہنے کے لیے
اس کی آگے منتقلی ضروری ہوتی ہے، اگر اِس کو روک دیا جائے تو وائرس خودبخود مر جاتا ہے اور وبا ختم ہو جاتی ہے، یہی ہم نے کرنا ہے، اور ہر شخص کو یہی کوشش کرنا ہے۔ اِس میں حکومت سے زیادہ ہماری انفرادی ذمہ داری ہے۔اب یہ فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کس حد تک کرتے ہیں۔ ایک دشمن جس کو آسانی سے دیکھا نہیں جا سکتا، اس کو شاید سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، لیکن یقین رکھیے کہ
یہ ہمارے عہد، اس صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔حکومت کا کام ہے نظامِ صحت ٹھیک کرنا، اچھی قرنطینہ سہولتیں مہیا کرنا اور لوگوں کے دیگر مسائل حل کرنا لیکن اگر اِس وبا کو واقعی روکنا ہے تو چین کی طرح اصل ذمہ داری ہم پر ہے کہ ہم احتیاط کریں اور اسے آگے منتقل ہونے سے روکیں۔ ایک شخص کی بھی غیر ذمہ داری اِس وائرس کی جیت اور ہماری ہار بن سکتی ہے۔