اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’صرف 15 دن ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔16 ویں اور17ویں صدی میں فرنچ‘ پرتگالی‘ ڈینش‘ برٹش اور ڈچ جہاز ران بھی امریکا پہنچ گئے۔یہ بھی واپسی پر بیماریوں کے تحفے لے آئے چناں چہ ایک ایسا وقت آ گیا جب پورا یورپ بیمار ہو چکا تھااور یہ بیماریوں سے بچنے کے لیے فرانس کی طرح ہر پورٹ پر قرنطینہ بنا نے پر مجبور ہو گیا تھا‘
بحری سفر کرنے والا ہر شخص اس قرنطینہ میں چالیس دن پورے کیے بغیر ملک میں داخل نہیں ہو سکتا تھا‘ 1928ءمیں اینٹی بائیوٹک ایجاد ہو گئیں‘ بیماریوں کے بیکٹیریاز کا علاج ممکن ہو گیاجس کے بعد قرنطینہ ختم ہوتا چلا گیا‘ آج آپ کو کسی پورٹ پر 40 دن انتظار نہیں کرنا پڑتا۔اس کی وجہ بلڈ ٹیسٹ اور اینٹی بائیوٹک ہیں‘ ڈاکٹر کسی بھی انسان کا خون ٹیسٹ کرتے ہیں‘ اگر بیماری نکل آئے تو اینٹی بائیوٹک کے ذریعے اس کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ چند گھنٹے بعد محفوظ ہو جاتا ہے یوں انسان نے بیماریوں کا تدارک کر لیا لیکن قدرت انسان اور انسانی تدبیر سے لاکھوں کروڑوں گنا تگڑی ہے چناں چہ اس نے نئے انداز سے حملے شروع کر دیے‘ بیکٹیریا کے بعد وائرس شروع ہو گئے‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے بیکٹیریا اور وائرس میں کیا فرق ہے؟۔میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں ہم انسانوں میں 37 ٹریلین باڈی سیلز ہوتے ہیں‘ ہمارا پورا وجود ان سیلز (خلیوں) سے بنتا ہے جب کہ ہمارے جسم میں 39 ٹریلین اچھے برے بیکٹیریاز ہوتے ہیں‘ اچھے بیکٹیریاز ہماری زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں‘ یہ خوراک ہضم کرتے ہیں‘ ہمارا خون بناتے ہیں اور ہمیں حرکت پر مجبور کرتے ہیں جب کہ برے بیکٹیریا ہمیں بیمار بناتے ہیں‘ یہ ہمیں کم زور اور لاغر کرتے ہیں‘ ہمارے جسم کے برے بیکٹیریا (مثلاً پس پیدا کرنے والے بیکٹیریا) اینٹی بائیوٹک سے ہلاک ہو جاتے ہیں جب کہ وائرس بیکٹیریا سے مختلف ہوتا ہے۔اس پر اینٹی بائیوٹک کا اثر نہیں ہوتا ‘یہ ہمیں بیمار کیے بغیر ختم نہیں ہوتا چناں چہ انسان کو
جب بھی وائرل اٹیک ہوتا ہے تو ادویات اس پر بے اثر ہو جاتی ہیں‘ یہ صرف اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ہی بیماری سے باہر آتا ہے۔انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا‘ وائرس زیادہ سے زیادہ 14 دنوں میں اپنا آپ دکھا دیتا ہے‘ یہ بیماری کو ظاہر کر دیتا ہے‘ آپ نے دیکھا ہو گا حکومتیں کورونا سے متاثر ہونے والے علاقوں سے آنے والے لوگوں کو14دن قرنطینہ میں رکھتی ہیں۔دوسرا دنیا میں اگر کرونا کا کوئی علاج موجود نہیں
توپھر 97 فیصد مریض ٹھیک کیسے ہو جاتے ہیں؟ یہ لوگ اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ٹھیک ہوتے ہیں‘ آرام کرتے ہیں‘ اچھی خوراک کھاتے ہیں اور ٹینشن فری رہتے ہیں چناں چہ یہ ایک دو ہفتوں میں صحت مند ہو جاتے ہیں باقی رہ گیا یہ سوال کہ حکومت انہیں ”آئسو لیشن“ میں کیوں رکھتی ہے تو اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے‘ مریض کرونا کے وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل نہ کرسکیں
چناں چہ میری آپ سے درخواست ہے آپ اگر خود اور دوسروں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ اپنے اپنے گھروں میں ایک کمرے کا قرنطینہ بنا لیں۔جس بھی شخص میں کرونا کی علامتیں ظاہر ہوں اسے اس کمرے تک محدود کر دیں‘ اس سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رکھیں‘ فون پر بات کریں اور خوراک کا ذخیرہ بھی ایک ہی بار اسے دے دیں‘ مریض کمرے میں رہے‘ کتابیں پڑھے‘ ٹی وی دیکھے‘
موبائل فون پر ویڈیوز دیکھے‘ دس دس‘ پندرہ پندرہ گھنٹے سوئے اور ہر دس منٹ بعد دو گھونٹ پانی پیے‘ یہ ان شاءاللہ دس دن میں صحت یاب ہو جائے گا‘ ہمیں یہ بات پلے باندھنا ہوگی یہ آسمانی آفت ہے‘ یہ اپنے وقت پر ہی ختم ہو گی‘ آپ اس میں اپنی بداعمالیاں یا گناہ تلاش نہ کریں‘ آفتیں آتی ہیں اور اپنا وقت گزار کر چلی جاتی ہیں چناں چہ آپ بھی قرنطینہ میں بیٹھ کر اس کے جانے کا انتظار کریں‘ یہ کم ہو رہی ہے‘یہ ان شاءاللہ اگلے پندرہ دن میں ختم ہو جائے گی‘ آپ نے صرف 15 دن کا قرنطینہ لینا ہے اور بس۔