اسلام آباد (پروگرام ۔۔کل تک۔۔جاوید چودھری کیساتھ )آج کا دن پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے بیک وقت خوشی اور دکھ کا دن تھا‘ آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال دونوں کو ضمانت پر رہا کر دیا جس کے بعد میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف ‘فواد حسن فواد‘ مفتاح اسماعیل سمیت ن لیگ کی ساری قیادت نیب کی حراست سے باہر آ گئی‘ صرف خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق باقی ہیں‘
۔۔انہیں بھی سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کا امکان ہے لہٰذا عوام نے کہنا شروع کر دیا ہے‘ ضمانتوں کے بعد حکومت کا احتساب کا بیانیہ (مکمل) طور پر دفن ہو گیا‘ لوگ اب حکومت کے احتساب کے دعوے کو سیریس نہیں لیں گے‘ یہ اپوزیشن کے لیے خوشی کی بات تھی‘ ہم اب دکھ کی طرف آتے ہیں، پنجاب کابینہ نے میاں نواز شریف کی لندن میں علاج کے (دورانیے) میں اضافے کی درخواست مسترد کر دی‘ میاں شہباز شریف نے ۔۔اسے سیاسی انتقام قرار دے دیا‘ ۔۔ان کا کہنا تھا یہ نواز شریف کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے اور (سلائیڈ) ہم نواز شریف کے علاج پر سمجھوتہ نہیں کریں گے جب کہ رانا ثناء اللہ نے کہا 16 ہفتے تو کیا 600 ہفتے بھی لگے تو نواز شریف علاج کے بعد ہی پاکستان آئیں گے۔حکومت اور ن لیگ دونوں نے اپنی اپنی پوزیشن واضح کر دی‘ کون جیتے گا‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جب کہ فواد چودھری نے اپنی ہی پنجاب حکومت پر عدم اعتماد کر دیا‘ ان کا کہنا تھا‘ (آخرنواز شریف کی میڈیکل رپورٹس برطانیہ سے کیوں نہیں بھجوائی جارہیں؟ بظاہر اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں ہونیوالے ٹیسٹ پاکستان میں ہونیوالے میڈیکل ٹیسٹ سے مختلف ہیں اور برطانوی ڈاکٹرز نواز شریف کو شدید بیمار قرار دینے سے ہچکچا رہے ہیں‘اس کا مطلب ہے کہ پنجاب حکومت نے جو میڈیکل ٹیسٹ کروائے وہ مشکوک تھے‘ ان حالات میں پنجاب حکومت کو ایک انکوائری بٹھانی چاہیے جو محکمہ صحت‘ لیبارٹری اور ڈاکٹر صاحبان کی شریف خاندان سے ملی بھگت کے معاملے کا جائزہ لے اور عوام کے سامنے مکمل حقائق رکھے۔کیا میڈیکل رپورٹس میں واقعی گڑ بڑ تھی اور کیا ۔۔اس ایشو کی تفتیش ہونی چاہیے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔