اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ جو کچھ میں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں کہا وہ مجھے زبانی طور پر بتایا گیا تھا اور واضح طور پر بہت ساری چیزیں دکھائی بھی گئی تھیں مگر میں ان کی تفصیلات میں نہیں جا سکتا۔ میں بہت ساری چیزیں نہیں بتا سکتا اس سے جھگڑے پیدا ہوں گے اور میں جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتا ہوں۔ جس وقت ضرورت ہو گی میں ان تفصیلات میں ضرور جاؤں گا مگر اس وقت نہیں۔
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم چیزوں سے پردہ اٹھائیں گے تو میں بھی پردہ اٹھا دوں گا۔ جو کہہ رہے ہیں کہ میں غلط بیانی کررہا ہوں تو اب میں کہہ رہا ہوں کہ وہ غلط بیانی کررہے ہیں۔ جو میں نے کہا سب نے سنا اس کو دہرانا نہیں چاہتا۔ استعفی دباؤ میں نہیں اپنی مرضی سے دیا۔ فروغ نسیم بطور حاضر وزیر قانون عدالت میں موجود تھے اور اگر انہیں میری بات پر اعتراض تھا تو وہ عدالت میں کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے کہ ہم نے اٹارنی جنرل کو اس قسم کی کوئی ہدایات نہیں دیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے مجھے ملاقات کے لئے بلایا ہے اور میں ا ن سے ملاقات کے لئے جاؤں گا۔ ان خیالات کا اظہار انور منصور خان نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انور منصور خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں دیئے گئے بیان پر اگر حکومت کی لاتعلقی ہوتی تو 48 گھنٹے بعد حکومت کو کیوں کوئی خیال آتا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے دن فروغ نسیم اور شہزاد اکبر میرے ساتھ ہی عدالت سے نکلے تھے اور کوئی ایسی بات نہیں تھی اور اگلے دن بھی کوئی بات نہیں تھی اور یکدم تیسرے دن انہوں نے ایک نیا ایشو کھڑا کر دیا جو کہ مناسب نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ججز بہتر سمجھتے ہیں کہ میری کارکردگی کیا تھی اور کیا نہیں تھی اور میری 40 سال سے زیادہ پریکٹس ہے اور کسی نے آج یہ چیز نہیں کہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ معلومات کس نے شیئر کی تھیں میں اس حوالہ سے اس مرحلہ پر کچھ نہیں کہوں گا اس لئے کہ جیسے ہی میں اس سے پردہ اٹھاؤں گا
اس سے اداروں کے درمیان جھگڑے شروع ہو جائیں گے اور میں پاکستان میں ادارے کے درمیان مزید جھگڑے کرنے کے لئے یہاں پر نہیں ہوں۔ انور منصور خان کا کہنا تھا کہ حکومت کو میری جانب سے عدالت میں پیش کئے گئے مؤقف کا علم تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی فیملی کی لندن میں جاسوسی کے لئے فرم کی خدمات حاصل کرنے کے حوالہ سے مجھے ا گاہی نہیں تھی اور نہ ہی مجھے پتہ تھا اور اس حوالہ سے مجھے اس وقت پتہ چلا جب ریفرنس بن کر اور دستاویزات میرے سامنے آئی ہیں بلکہ چند دستاویزات تو آج تک میرے سامنے نہیں آئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے جو بات بتائی ہے اس میں پوری صداقت ہے اور اس پر میرے دماغ میں کوئی ابہام نہیں ہے اور میں آج بھی کہہ رہا ہوں کہ ہر چیز کا حکومت کو علم تھا اور میں آج بھی کہہ رہا ہوں کہ بہت ساری دستاویزات میرے سامنے نہیں آئی ہیں، میں یہ بھی کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے بہت ساری چیزیں چھپائی بھی گئی تھیں اور بعض چیزیں مجھے بتائی بھی گئی تھیں تاہم اس حوالہ سے اس مرحلہ پر میں کوئی چیز افشا نہیں کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور اٹارنی جنرل کیس لڑنا میری ڈیوٹی تھی اس میں کیس کو قبول کرنے کی بات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے اندر کیس کنڈکٹ کرے اور دو چیزیں بڑی واضح تھیں کہ وہ جائیدادیں تسلیم شدہ ہیں۔ جب تینوں جائیدادیں تسلیم شدہ ہیں تو اس کے اندر کوئی ابہام نہیں رہا تھا اوراب ایشو صرف اتنا تھا کہ جب شواہدآتے تو بہت ساری دستاویزات سامنے آتیں تاہم ابھی تک مکمل طور پر شواہد سامنے نہیں آئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کی یہ کیس اس مرحلہ تک پہنچا ہی نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ایک حقیقت مووجو ہے اور اس کی وضاحت کے لئے یہ ریفرنس ہے اور عدالت سے صرف یہ کہا گیا ہے کہ آپ صرف خود تحقیق کرکے بتائیں کہ کیا یہ جائیداد جج صاحب کی ہے یا یہ جائیداد واقعی بیگ صاحبہ کی ہے، اتنی سی بات ہے اس میں میرے خیال میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔
میرا نہیں خیال ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرارت ہو اور میرا نہیں خیال کہ اس کے اندر کوئی اور اینگل ہوگا۔ سروسز چیفس کی تقرری کے حوالہ سے کیس سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس میں میرا کوئی کام نہیں ہے کہ کسی نوٹیفکیشن یا قانون کی کوئی ڈرافٹنگ کروں، قانون کی ڈرافٹنگ قانون کا محکمہ کرتا ہے اور لا ڈیپارٹمنٹ جس نے کیا تھا اور جس کی سربراہی فروغ نسیم کرتے تھے اور ظاہر ہے جب وہ سربراہی کرتے تھے تو وہی اس چیز کے لئے ذمہ دار ہیں۔ انور منصور خان کا کہنا تھا کہ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ججوں کی سرویلنس نہیں ہو رہی اور نہ ہونی چاہیے، میں اس حوالہ سے تقریباً 20 دفعہ مختلف لوگوں سے پوچھا ہے اور یہ سوالات پوچھنے کے بعد میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ سرویلنس نہیں ہو رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور فرد میری پہلی ترجیح ملک ہے اور ملک کے ادارے ہیں اور میں ادارے کے ساتھ کچھ ہونے کی اجازت نہیں دوں گا اور یہ کسی صورت میں بھی میرے سے نہیں ہو گا۔