ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کیا پرویز مشرف کےد ور حکومت میں لال مسجد پر حملہ حامد میر کے کہنے پر کیا گیا تھا ؟ چوہدری شجاعت کی کتاب میں کیا انکشافات کیے گئے ہیں ؟ ایسے حقائق جن سے آپ لاعلم ہونگے

datetime 14  فروری‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی و کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم ’’ہمیں صرف آنسو نہیں بہانے‘‘میں لکھتے ہیں ۔۔۔ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ عاصمہ جہانگیر کو یہ دنیا چھوڑے دو سال گزر بھی گئے۔ گیارہ فروری کو اُن کی دوسری برسی پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد میں عاصمہ جہانگیر میموریل لیکچر کا اہتمام کیا اور اس لیکچر میں آئی اے رحمان صاحب نےآج کے پاکستان میں

انسانی حقوق کی صورتحال پر روشنی ڈالی۔ وہ بتا رہے تھے کہ ایک طرف پاکستان میں بےروزگاری بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف جن کے پاس روزگار ہے اُنہیں تنخواہ نہیں ملتی۔ اُنہوں نے خبردار کیا کہ آزادیٔ اظہار پر مزید پابندیاں لگنے والی ہیں لہٰذا انسانی حقوق کی تنظیموں کو صحافیوں، وکلا اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اشتراکِ عمل بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سوالات شروع ہوئے تو ماحول دکھ اور تکلیف میں ڈوب گیا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن اپنے سوالات میں اپنی اپنی بےبسی کی کہانیاں بیان کرنے لگے اور میں یہ سوچنے لگا کہ جو ریاست اپنے ہی لوگوں کے انسانی حقوق پامال کرتی ہے وہ کسی دوسری ریاست پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام لگانے میں کتنی حق بجانب ہے؟ پاکستان کو اگر کسی دوسری ریاست کے ظلم کے خلاف موثر آواز بننا ہے تو سب سے پہلے پاکستان کو ایسی ریاست بنانا ہے جہاں آزادیٔ اظہار پر پابندیاں نہ ہوں، ہزاروں افراد لاپتا نہ ہوں، سیاسی اختلاف کرنے والوں پر بغاوت کے مقدمے نہ بنتے ہوں اور سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو ریاستی ادارے دھمکیاں نہ دیں۔ آئی اے رحمان صاحب کا لیکچر ختم ہو گیا تو چند نوجوان وکلا میرے پاس آئے۔ ایک نوجوان وکیل نے بتایا کہ وہ آن لائن ہراسمنٹ پر ریسرچ کر رہا ہے اور کچھ سوالات کرنا چاہتا ہے۔ میرے پاس وقت نہیں تھا لیکن اُس نے صرف چند منٹ مانگے۔

ہم ایک کونے میں چلے گئے۔ میں نے کہا پلیز جلدی فارغ کر دینا۔ اُس نے کہا صرف تین سوال پوچھنے ہیں۔ پہلا سوال یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر تواتر کے ساتھ آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کے گائوں میں جا کر پروگرام کیا اور جیو نیوز پر آپ نے اُسے پاکستانی ثابت کیا ہم نے آپ کا وہ پروگرام بہت ڈھونڈا لیکن نہیں ملا اگر حکومتِ پاکستان نے اُسے پاکستانی تسلیم کیا

تو آپ پر اعتراض کیوں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ مجھے نہیں پتا اجمل قصاب کا گائوں کدھر ہے، نہ میں کبھی وہاں گیا، نہ وہاں پروگرام کیا۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ پرویز مشرف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ 2007میں آپ نے لال مسجد میں آپریشن کرایا تھا اور جب مشرف نے یہ بات کی تو اُن کے سامنے بیٹھے ہوئے اینکر صاحب نے تائید میں سر ہلایا۔ ہم نے اُس اینکر سے پوچھا کہ حامد میر نے کب

اور کہاں مشرف کو لال مسجد پر حملے کے لئے اُکسایا تو اُس اینکر نے کہا کہ پتا نہیں۔ ہمیں بھی کوئی ثبوت نہیں ملا تو مشرف نے یہ الزام کیوں لگایا؟ میں نے بتایا کہ آپ چوہدری شجاعت حسین کی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ پڑھ لیں اُنہوں نے لکھا ہے کہ جب وہ مذاکرات کے ذریعہ لال مسجد کا معاملہ حل کرنے کی کوشش میں تھے تو حامد میر نے اُن کی مدد کی۔ مشرف نے مجھ پر جھوٹا الزام اس لئے لگایا کہ

میں اُنہیں 1998سے جانتا ہوں جب وہ کور کمانڈر منگلا تھے اور حمید اصغر قدوائی کے ذریعے آرمی چیف بننے کے لئے لابنگ کر رہے تھےبعد ازاں میں اُن کی کشمیر پالیسی کا ناقد رہا۔ اُن پر سخت تنقید کرتا رہا لہٰذا وہ جھوٹ بول کر انتقام لیتے رہے۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کے والد پروفیسر وارث میر مرحوم نے بنگلا دیش بنانے میں شیخ مجیب الرحمٰن کی مدد کی تھی؟ یہ سوال سُن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔

میں نے بتایا کہ 1971میں میرے والد پنجاب یونیورسٹی لاہور میں صحافت کے اُستاد تھے۔ وہ لاہور میں بیٹھ کر شیخ مجیب کی کیسے مدد کر سکتے تھے؟ مارشل لا کا زمانہ تھا اور وہ سرکاری ملازم تھے۔ مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن کے مخالف تھے لیکن یہ مخالفت تو لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے بھی کی تھی اور ایسٹرن کمانڈ چھوڑ دی۔ وکیل نے سوال کیا تو پھر بنگلا دیش کی

حکومت نے آپ کے والد کو ’’فرینڈز آف بنگلا دیش‘‘ کا ایوارڈ کیوں دیا؟ میں نے بتایا کہ یہ ایوارڈ تو فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ کو بھی ملا۔میرے والد کو اس لئے ملا کہ وہ پاکستان ٹوٹنے سے چند ہفتے قبل پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک وفد لے کر ڈھاکا یونیورسٹی گئے اور وہاں کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کچھ سال کے بعد سچائی لکھ ڈالی۔ یہ سچائی اُس وقت شائع ہوئی جب بنگلا دیش بن چکا تھا۔

وکیل نے حیرانی سے پوچھا کہ تو پھر سوشل میڈیا پر کچھ لوگ آپ کے والد کو گندی گالیاں کیوں دیتے ہیں؟ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا شاید گالیاں دینے والے کسی کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہیں کیونکہ آج کل کچھ نوجوانوں کا روزگار آن لائن گالی گلوچ سے وابستہ ہے۔نوجوان وکیل نے مجھے اپنے لیپ ٹاپ پر چالیس ٹویٹر اکائونٹس دکھائے جو میرے سمیت کچھ دیگر صحافیوں اور سیاستدانوں کو گالی گلوچ کرتے ہیں۔

پھر اُنہوں نے حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے حوالے سے کہا کہ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ حامد میر نے احسان اللّٰہ احسان کا انٹرویو کیا تھا حالانکہ آپ نے یہ انٹرویو نہیں کیا۔ اس خاتون نے دعویٰ کیا کہ آپ نے اجمل قصاب کا معاملہ اٹھایا یہ بھی غلط ہے، اس خاتون کو کئی بھارتی چینلز نے اپنے پروگراموں میں بلایا اور اس نے آپ پر الزامات لگائے، آپ نے کارروائی کیوں نہ کی؟

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…