اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ہم خیال مصر میں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔مصر صرف ملک نہیں یہ حقیقتوں کی ایک کھلی کتاب ہے‘ ایسی کتاب جو منہ سے کہتی ہے دنیا اور اس کی تمام اچیومنٹس عارضی ہیں‘ یہ دنیا‘ یہ تخت‘ یہ بادشاہت اور یہ اقتدار اگر فرعون کا نہیں ہوا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں‘ ہم اللہ کی زمین پر کتنا عرصہ حکومت کر لیں گے‘
مجھے فرعونوں کے وہ اہرام بھی ہمیشہ ”فیسی نیٹ“ کرتے تھے جن میں بادشاہوں کو ان کے سازوسامان‘ ان کے غلاموں‘ کنیزوں‘ گھوڑوں‘ بستروں اور تختوں سمیت دفن کر دیا جاتا تھا۔مصر کے فرعونوں کا خیال تھا بادشاہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور انہیں اس سازوسامان کی ضرورت ہوتی ہے‘ فرعون موت کو نیند بھی سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا دنیا میں وہ وقت جلد آ جائے گا جب ان کے کاہن انہیں دوبارہ جگا دیں گے اور انہیں اس وقت اپنے بستر کی ضرورت بھی ہو گی‘ تخت کی بھی‘ برتنوں اور خوراک کی بھی اور لونڈیوں‘ غلاموں‘ گھوڑوں اور ہتھیاروں کی بھی لہٰذا یہ اپنی عمر بھر کی کمائی اپنے ساتھ لے کر دفن ہوتے تھے۔بیسویں صدی کے شروع میں یہ اہرام دریافت ہوئے اور جب انہیں کھولا گیا تو ان میں صرف دو چیزیں سلامت تھیں‘ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں اور دوسری شہد‘ شہد کے مرتبانوں میں شہد بالکل تازہ اور قابل استعمال تھا‘ سماجی اور سائنسی ماہرین کو اس سے معلوم ہوا شہد پانچ ہزار سال بعد بھی سلامت اور قابل استعمال رہتا ہے اور یہ اس لحاظ سے دنیا کی واحد خوراک ہے اور دوسرا فرعونوں کی نعشیں تھیں‘ مصر کے قدیم ماہرین فرعونوں کی انتڑیاں اور جسمانی اعضاء نکال کر ان میں بھس بھر دیتے تھے‘ جلد پر ایک ایسا مصالحہ لگا دیا جاتا تھا جولاش کو ہزاروں سال تک زندہ رکھتا تھا اور اس کے بعد نعش کو ململ کے کپڑے میں لپیٹ دیا جاتا تھا۔فرعونوں کی نعشیں ایسے تابوتوں میں رکھی جاتی تھیں جن کی لکڑی ہزاروں سال تک سلامت رہتی تھی‘
یہ کیڑے اور وقت کی کروٹ دونوں سے محفوظ رہتی تھی‘ تابوت کے ڈھکن پر تصویریں کندہ کی جاتی تھیں‘ یہ تصویریں فرعون کے رتبے اور سماجی مقام کی سند ہوتی تھیں‘ فرعون بلا کے حسن پرست بھی تھے‘ یہ اپنے لئے ملکاؤں اور کنیزوں کا انتخاب شام سے کرتے تھے‘ شام کی عورت کو دنیا کی حسین ترین خاتون کا اعزاز حاصل ہے‘ حسن‘ نزاکت اور سلیقہ گویا شام کی سرزمین پر آسمان سے اترتا ہے۔
شام کی عورت آج بھی دنیا میں حسین ترین سمجھی جاتی ہے‘ یہ عورتیں وفا کا مجسمہ بھی ہوتی ہیں‘ فرعونوں کے عہد میں شام سے ہزاروں کی تعداد میں خواتین مصر لائی جاتی تھیں‘ یہ خواتین مصر کے حسب نسب میں شامل ہو چکی ہیں چنانچہ آپ کو مصری خواتین کے چہروں پر شام کی عورتوں کی لالی اور تیکھا پن دکھائی دیتا ہے‘ مصر کی عورت میں فرعون کا تفاخر اور شامی عورتوں کی حیاء دونوں ہیں
یہ نخرہ اور یہ حیاء انہیں دنیا میں ممتاز حیثیت دیتی ہے‘ مجھے حیاء اور نخرے کا یہ دل چسپ امتزاج ہمیشہ ”فیسی نیٹ“ کرتا ہے‘ دریائے نیل محض دریا اور اس کے کنارے محض کنارے نہیں ہیں۔یہ تاریخ کا بہتا ہوا دھارا بھی ہے جس میں فرعون قدیم سے لے کرفرعون جدید تک کے تکبر کا نمک گھلا ہے‘ہمارے جیسے ہم خیال لوگ تاریخ کے صفحات میں بکھرے فرعونوں کو قدیم سے جدید دور میں داخل ہوتا
بھی دیکھنا چاہتے تھے‘ ہم نیل کے کناروں پر بکھری وہ تاریخ بھی دیکھنا چاہتے تھے جس میں حوادث کا نمک اور کروٹ بدلتے وقت کی تندی ہے اور آج کی مصری عوام بھی انقلابات کی تاریخ میں سنگ میل بن چکی ہے‘ اس نے حسنی مبارک جیسے آمر کو بے توقیر‘ بے اقتدار کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ یہ التحریر چوک میں جنم لینے والا انقلاب تھا جس نے انقلاب کے متمنی ہر معاشرے میں ایک التحریر چوک تحریر کر دیا اور دنیا کا ہر ظالم اور خبط اقتدار میں مبتلا حکمران اپنے محلات کی کھڑکیوں سے یہ تحریر پڑھنے لگا۔