اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’وہ لوگ وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ہم اب آٹے کے موجودہ بحران کی طرف آتے ہیں‘ حکومت نے مئی سے جولائی کے دوران گندم خرید کر ذخیرہ کرنی تھی‘ پاسکو نے وزراءاور افسروں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے 33 فیصد کم گندم خریدی‘ کے پی کے اور بلوچستان حکومتوں نے سوچا پنجاب میں ہماری حکومت ہے‘
ہم پنجاب سے گندم لے لیں گے چناں چہ دونوں صوبوں کی حکومتوں نے گندم ذخیرہ نہیں کی‘ پنجاب اور وفاق نے بھی گندم کم خریدی‘ رہی سہی کسر فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے ناتجربہ کار افسروں نے پوری کر دی‘ یہ ملوں کو سرکاری نرخوں پر گندم دیتے رہے اور مل مالکان مارکیٹ میں مہنگی بیچتے رہے۔گندم اور آٹا افغانستان بھی سمگل ہوتا رہا اور آخری تیر حکومت نے فروری 2019ءمیں پانچ لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ کر کے چلا دیا‘ یہ فیصلہ کرتے وقت کسی بقراط نے نہیں سوچا ہمیں بھی تو گندم اور آٹا چاہیے‘ ہم کہاں سے لیں گے چناں چہ ملک میں بحران پیدا ہو گیا‘ آٹے کا ریٹ 40 روپے کلو ہے جب کہ یہ مارکیٹ میں 75 روپے کلو بک رہا ہے اور یہ پوری دنیا میں سب سے مہنگا ہے‘ وہ حکومت جس نے گیارہ ماہ پہلے پانچ لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ کی تھی وہ اب تین لاکھ ٹن امپورٹ کر رہی ہے اور وہ بھی مہنگی اور اسے بھی آتے آتے دو تین ماہ لگ جائیں گے اور وہ جب آئے گی تو اس وقت ہماری اپنی فصل پک کر مارکیٹ میں آ چکی ہو گی۔میری درخواست ہے اگر وزیراعظم کے پاس دس منٹ ہیں اور یہ واقعی سنجیدہ ہیں تو یہ اس ایشو کی انکوائری کرا لیں ‘ یہ حیران رہ جائیں گے‘ یہ بحران وزیراعظم کے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں نے پیدا کیا اور یہ اس سے40ارب روپے کما گئے اور یہ لوگ اب چینی سے بھی 50 سے 80 ارب روپے کمائیں گے اور یہ ہے وہ ریاست مدینہ جس کے لیے جاگ جاگ کر ہم نے اپنی آنکھیں پتھر کر لی تھیں‘ آپ کو ایک بار پھر مبارک ہو‘ آپ آج گندم کے ہاتھوں لٹیں‘ کل چینی کے ہاتھوں اور پھر سبزیوں‘ دالوں اور گوشت کے ہاتھوں بھی لٹنے کے لیے تیار ہو جائیں اور یہ وہ خواب تھا جسے ہم 20 سال پالتے رہے۔