اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جہانگیر ترین نے ایک سال سے کم عرصہ پہلے گندم کو باہر بھجوانے کے لئے سرگرم تھے، اب جہانگیر ترین گندم کو باہر سے منگوانے کے لئے بھی سرگرم ہیں۔ یہ انکشاف معروف صحافی طلعت حسین نے یو ٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہاکہ 2019ء میں منسٹری آف فوڈ اینڈ سکیورٹی کہہ رہی تھی کہ آپ نے گندم ایکسپورٹ نہیں کرنا ہے لیکن اس وقت یہ بیان جاری کر دیا کہ پاکستان میں گندم کی کوئی کمی نہیں ہے۔
معروف صحافی نے کہا کہ ملک بھر میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، آپ کو ہر جگہ پر لوگ آٹے کے لئے ترستے ہوئے نظر آتے ہیں اور روٹی کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، حکومت کی طرف سے طرح طرح کے مضحکہ خیز بیانات سامنے آ رہے ہیں، معروف صحافی نے کہا کہ شیخ رشید نے بیان دیا کہ لوگ نومبر اور دسمبر میں زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں اس لئے آٹے کا بحران ہے۔ معروف صحافی نے کہاکہ کے پی کے وزیر شوکت یوسف زئی کا بیان اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے وہ فرما رہے ہیں کہ ہم آپ کو یہ تجویز کرتے ہیں کہ آپ چکی کا آٹا کھایا کریں اور دوسرا یہ کہ آپ روٹیوں کا وزن کم کر دیں۔ قیمت عام صارف وہ ہی ادا کرے جو اسے کرنا پڑ رہی ہے لیکن روٹی کا وزن کم ہو۔ معروف صحافی طلعت حسین نے کہا کہ بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں آٹا گیا کدھر، آٹے کے بحران کا تعلق گندم کی منیجمنٹ کے ساتھ ہے، اس حکومت نے جس طریقے سے گندم کو منیج کیا وہ اب آٹے کا بحران ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کہہ رہے تھے کہ آٹے اور گندم سمیت تمام چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول کر لیں گے لیکن اب وہ سر کھجا رہے ہیں اور وہ تجویز مانگ رہے ہیں کہ قیمتوں کو کس طرح سے کنٹرول کیا جائے۔ اب انہوں نے نیا ڈرامہ شروع کیا ہے اور انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ جن لوگوں نے آٹا ذخیرہ کیا ہوا ہے آپ وہاں چھاپے ماریں گے اور ان سے آپ آٹا نکلوائیں گے۔ یہ بحران کیسے آیا اس بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فروری 2019ء میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم نے گندم ملک سے باہر بھیجنی ہے،
یہ گندم افغانستان کو بھیجنے کا فیصلہ کیاگیا، اس وقت اعداد و شمار موجود تھے جن کے مطابق گندم کی پیداوار اتنی نہیں ہوئی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی اس لئے ہمارے پاس ایکسپورٹ کرنے کے لئے اتنی گندم نہیں ہے جتنا آپ چاہ رہے ہیں، اس کے باوجود حکومت نے گندم کو باہر بھجوانے پر پابندی کی درخواست رد کر دی۔ مارچ 2019ء میں دو مہینوں کے اندر جہانگیر ترین نے ڈی کوالیفائی ہونے کے باوجود پاکستان کے اندر طاقتور ترین شخصیت ہیں، پنجاب کے اندر کوئی بھی ڈیپارٹمنٹ بشمول فوڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ ان کی مرضی کے بغیر نہیں چلتا،
کم از کم پی ٹی آئی کے بہت سارے حلقوں کا یہی خیال ہے۔ مرکز کے اندر بھی عمران خان ان کے بغیر نہیں چلتے۔ جہانگیر ترین کو گندم ایکسپورٹ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، جہانگیر ترین نے گندم کو باہر بھجوانے کے طریقوں پر غور شروع کر دیا۔ جون 2019ء میں منسٹری آف فوڈ سکیورٹی نے کہا کہ گندم ایکسپورٹ نہ کریں ایسا کرنے سے یہاں حالات خراب ہو سکتے ہیں لیکن جون 2019ء میں وفاقی حکومت اکڑ گئی کہ ہم نے گندم کی ایکسپورٹ کو کسی صورت بین نہیں کرنا۔ اس پر بحث ہوئی اور ای سی سی نے فیصلہ کیا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو یہاں پر گندم کا بحران ہو گا،
انہوں نے گندم کی ایکسپورٹ پر پابندی عائد کر دی۔ کافی ساری گندم ایکسپورٹ کرنے کے بعد حکومت نے ستمبر 2019ء میں پابندی منظور کر لی۔ اکتوبر 2019ء میں پابندی کے باوجود فائن آٹا افغانستان جاتا ہوا نظر آیا۔ اندرون خانہ افغانستان کو یہ ایکسپورٹ جاری رہی۔ دو ہی ہفتوں کے اندر خیبرپختونخوا میں گندم کے بحران کا آغاز ہو گیا۔ قیمتوں میں اضافہ ہو گیا، چار ہزار والا تھیلہ چار ہزار پانچ سو پر چلا گیا۔ جس پر شور مچا لیکن کے پی کے اسمبلی میں بحران کی خبروں کو رد کر دیا گیا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ صرف میڈیا کی طرف سے ہے کوئی بحران نہیں ہے لیکن اس بیان کے چار دن بعد ہی آٹے کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو گیا فی کلو آٹے کی قیمت 70 روپے تک پہنچ گئی۔
لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ اس طرح کے پی کے سے شروع ہونے والا بحران پورے ملک میں پہنچ گیا۔ اس پر وزیراعظم صاحب نے میٹنگز شروع کر دیں اور اس بحران کو ختم کرنے کے لئے انہی دو لوگوں کو تعینات کر دیا جن دو لوگوں کی وجہ سے یہ بحران آپ کو دوسرے لوگوں کے ساتھ گھومتا ہوا نظر آیا، جہانگیر خان ترین اور خسرو بختیار۔ اور کہا گیا کہ ہم نے اس بحران کو حل کرنا ہے، مارکیٹ کے اندر آٹا موجود ہے۔ معروف صحافی نے کہا کہ وہ منسٹری جو 2019ء میں کہہ رہی تھی کہ گندم ایکسپورٹ نہ کی جائے اب کہہ رہی ہے کہ کوئی بحران ہے ہی نہیں، ہمارے پاس گندم موجود ہے۔ معروف صحافی نے کہا کہ اگر آپ کے پاس گندم موجود ہے تو پنجاب حکومت نے گندم کو کے پی کے بھجوانے سے کیوں روک دیا۔
اگر آپ کے بارڈرز اتنے ہی کنٹرول میں ہیں جتنے کے ہیں تو پھرخیبرپختونخوا سے آٹا افغانستان کیسے جا رہا ہے۔ بحران یقیناًموجود ہے بحران پالیسی میکنگ کا بھی ہے اور بحران سمگلنگ کا بھی ہے۔ اب جہانگیر ترین کو وزیراعظم عمران خان نے ایک اور ٹاسک دیا ہے کہ گندم باہر سے منگوانی ہے۔ اس طرح جہانگیر ترین جو ایک سال سے کم عرصے پہلے گندم کو باہر بھجوانے کے لئے سرگرم تھے اب وہ گندم کو دوبارہ پاکستان منگوانے کے لئے سرگرم ہیں۔ معروف صحافی نے کہا کہ اس تمام گھن چکر کے اندر ہماری اور آپ کی روٹی بیچ میں رہ گئی، جو روٹی دو کھاتے تھے وہ ایک پر آ گئے۔ جو ایک کھاتے تھے وہ آدھی کھانے لگ گئے اور جو آدھی کھا رہے تھے وہ بھوکے مرنے لگ گئے۔ معروف صحافی نے کہا کہ ایکسپورٹر مال باہر بھجوانے سے پیسے کماتا ہے
اور حکومت سے بھی پیسے مانگتا ہے یعنی آپ سبسڈی دیں تاکہ ہم ایکسپورٹ کر پائیں۔ ایک ایکسپورٹ کرکے پیسہ کماتا ہے اور ایک سبسڈی لے کر پیسہ کماتا ہے۔ جب آپ گندم امپورٹ کرتے ہیں تو اس کے اندر دوگنا پیسے بنتے ہیں۔ جب آٹا اور گندم کا بحران ہوتا ہے تو لوگ ذخیرہ اندوزی کرکے دوگنے تگنے پیسے کما لیتے ہیں۔ پاکستان کے اندر آٹا کا بحران بھی ایسے ہی چلا ہے جیسے شوگر مافیا کا چلا ہے۔ شوگر مافیا نے اربوں روپے کمائے اور گندم کے معاملے پر بھی مافیا نے یہ ہی کام کیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے لیکن اگر وہ اپنے اقدامات اور ان پر لگائے گئے لوگوں کو ہی پڑھ لیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ گندم اور شوگر کے حوالے سے جو سازش ہوئی ہے وہ بنیادی طور پر اس پالیسی کے ذریعے ہوئی ہے جس کے ذریعے یہ دو چار لوگ آپ کو سرگرم نظر آتے ہیں۔