خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں کسی قاضی نے عدالت میں قرآن مجید منگوایا‘ فریقین کے درمیان رکھا اور مدعی اور مجرم کا فیصلہ قرآن مجید پر چھوڑ دیا‘ مدعی نے قرآن (اٹھا) لیا‘ مجرم نے حلف دینے سے انکار کر دیا‘ قاضی نے مدعی کے حق میں فیصلہ دے دیا‘ خلیفہ کو اطلاع ہوئی تو (اس) نے قاضی کو معزول کر دیا اور عدالت توڑ دی‘ بادشاہ سے ۔۔اس عجیب و غریب فیصلے کی منطق پوچھی گئی تو
بادشاہ نے کہا جب فیصلہ قرآن ہی نے کرنا ہے تو پھر قاضی اور عدالت کی کیا ضرورت ہے‘ لوگ قرآن مجید درمیان میں رکھ کر اپنے فیصلے خود کر لیاکریں گے‘ بادشاہ کی بات درست تھی کیوں کہ جب فیصلے حلف پر چلے جائیں تو ۔۔اس کا مطلب ہوتا ہے حکومت اور لوگوں دونوں کا عدالتی نظام پر اعتبار ختم ہو چکا ہے‘ آج ہماری پارلیمنٹ میں بھی دو فریقین کے درمیان قرآن مجید آ گیا‘ ہم اس کا مطلب کیا لیں‘ یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کون سچا ہے اور کون جھوٹا یہ فیصلہ اب قرآن مجید ہی کرے گا‘ ہم بہرحال آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں میاں نواز شریف کی ایک تصویر نےان کے لیے مسائل بڑھا دیے‘ کیا واقعی کوئی انتہائی بیمار شخص ریسٹورنٹ جا سکتا ہے اور کیا میاں نواز شریف کواب واپس آجانا چاہیے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جب کہ پوری حکومت اس وقت صرف ایک کام کر رہی ہے اور وہ ہے اتحادیوں کو راضی کرنا‘ یہ کام اگر اتنا ہی ضروری تھا تو پھر حکومت نے اتحادیوں کو ناراض کیوں کیا تھا‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔