اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنےکالم ’’قومی مفاد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ”میاں نواز شریف 1997ءمیں دوسری بار وزیراعظم بنے‘ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے‘ یہ پروفیسر ٹائپ آرمی چیف تھے‘ قانون اور قاعدے کے مطابق
چلتے تھے۔میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے ساتھ بھی محاذ آرائی شروع کر دی‘ یہ محاذ آرائی جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے پر اختتام پذیر ہوئی‘ میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو خود منتخب کیا‘ یہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے‘ گوہر ایوب پانی و بجلی کے وزیر تھے‘ جنرل علی قلی خان ان کے برادرنسبتی ہیں‘یہ جنرل مشرف سے سینئر تھے‘ گوہر ایوب انہیں آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے مگر میاں نواز شریف اس عہدے پر کسی تگڑے خاندان کا کوئی جنرل نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔جنرل پرویز مشرف کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں کوئی نہیں تھا لہٰذا یہ ہمارے قائد کی نظر انتخاب میں آ گئے‘ جنرل مشرف نواز شریف کو پسند کرتے تھے‘ میاں شریف نے ان کو اپنا بیٹا بھی بنا لیا مگر یہ رشتہ بھی زیادہ دنوں تک نہ چل سکا اور اس کا اختتام بھی 12 اکتوبر 1999ءکی شکل میں نکلا‘ میاں نواز شریف تیسری بار5جون2013ءکو وزیراعظم بنے‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے‘ میاں نواز شریف کا ان سے بھی پھڈا ہو گیا‘ میاں صاحب نے خود تین جنرلز میں سے جنرل راحیل شریف کو منتخب کیا۔