اسلام آباد (این این آئی)سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ آئین شکنی کوئی معمولی جرم نہیں ، خصوصی عدالت کے فیصلہ میں آئینی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عجلت میں فیصلہ سنایا گیا،شفاف ٹرائل اورسابق صدر پرویز مشرف کو موقع نہیں ملا،
فیصلہ میں 77سالہ سابق صدر پرویز مشرف جو کہ بیماری کی حالت میں ہیں ان کو سزائے موت سنائی گئی، ٹرائل میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ منگل کو خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے دیگر کے ہمراہ نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ماہر قانون سے ان کی رائے لی جائے کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ غیر موجودگی میں سزا سنائی جائے، پرویز مشرف کا ایسا کیس ہے جس کا استغاثہ 7 سال کی تاخیر سے دائر کیا گیا انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ 2007 کا ہے جبکہ اس کا استغاثہ 2013 میں دائر کیا گیا، کیا ہمیں یہ بتایا جا سکتا ہے کہ اس میں سات سال کی تاخیر کیوں کی گئی اور ہماری درخواستوں کو مسترد کر کے اچانک فیصلہ سنا دیا گیا۔ا نہو ں نے کہا کہ فیصلہ میں آئینی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا ہماری درخواستیں قانون کے مطابق اور اہم تھیں جنہیں مسترد کیاگیا، ہماری ایک درخواست یہ تھی کہ ایک میڈیکل کمیشن قائم کیا جائے جو جاکر خود جائزہ لے، قانونی ماہرین سے ان کی رائے لی جائے کیاغیر موجودگی میں سزا دی جاسکتی ہے، استغاثہ کو چاہیے تھا کہ وہ اڑھائی سے 3 سال میں اپنا کیس مکمل کرلیتے مگر انہوں نے کیوں اس کو مکمل نہیں کیا،عدالت کی جانب سے کبھی کہا جاتا رہا کہ سلمان صفدر مشرف کے وکیل نہیں ہیں تو کبھی ہیں، حالانکہ سلمان صفدر کو اے پی ایم ایل نے نہیں بلکہ پرویز مشرف نے از خود
اپنا وکیل مقرر کیا، انہوں نے کہا کہ جلد بازی میں تمام درخواستوں کو مسترد کیا، جب ایک مریض کی مسلسل کیموتھراپی چل رہی ہے تو آپ کس طرح عدالت میں پیش ہوسکتے، انسانی بنیادوں پر خود وزارت داخلہ نے علاج کے لئے جانے کی اجازت دی ہمارے لئے یہ فیصلہ حیران کن اور اچانک تھا، اس فیصلے میں بنیادی غلطیاں تھیں جنہیں درست نہیں کرنے دیا گیا،پرویز مشرف کیس کا فیصلہ آچکا ہے
اور خصوصی عدالت سزائے موت سنائی گئی، قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عجلت میں فیصلہ سنایا گیا،شفاف ٹرائل اورسابق صدر پرویز مشرف کو موقع نہیں ملا،اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہم نے اپنی پٹیشن دائر کی اور یہ فیصلہ تین ہفتے پہلے ہمارے حق میں آیا تھا، ہائیکورٹ نے بھی فیئر ٹرائل کا حکم دیا تھا،فیئر ٹرائل میں بہت سی خامیاں ہیں، مشرف کیس کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کیس سے بھی بدتر آیاہے،
سلمان صفدر نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی، سابق صدر مشرف کی طبیعت ناساز ہے، اب یہ فیصلہ عوام پرہے، سابق صدر انتہائی نگہداشت میں ہیں، ان کی بیماری کی وجہ سے وہ اکثر اسپتال میں رہتے،مشرف کی غیر حاضری میں کیس کا فیصلہ سنایا گیا اور وکلا تک کو نہیں سناگیا، یہ فیصلہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سوالیہ نشان ہے جس طرح ایک سابق صدر کو سزا سنائی،
آج دن تک کسی شخص کو غیر موجودگی میں سزا نہیں سنائی گئی 342 کا بیان ریکارڈ نہیں کرایا،یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی،سابق دور میں وزارت داخلہ کے ذریعے استغاثہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بنا جان بوجھ کر دائر کیا،کبھی مشرف کو اشتہاری اور کبھی انکا ٹرائل دوبارہ شروع کردیا جاتا رہا،اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز اور عبدالحمید ڈوگر کو کیوں ملزم نہیں بنایا گیا؟ یہ درخواست بھی مسترد کردی،
تمام شفاف قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے پیرانہ سالی میں پھانسی کی سزا سنائی گئی، ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، جیسے ہی آئے گا تو اس کو چیلنج کیا جائے گا،آئین شکنی کوئی معمولی جرم نہیں ہے، اس حوالے سے بہت سے قانونی پہلوئوں کو دیکھنا ہوتا ہے،سکائپ کے بیان کا آپشن ضرور دیا گیا مگر یہ ممکن نہیں تھا،تاریخ میں پہلی بار اس طرح کا فیصلہ عجلت میں دیا گیا۔