اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار و اینکر پرسن حامد میر اپنے کالم’’مزید حماقتیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔بہت عرصے کے بعد میں ’’حماقتیں‘‘ تلاش کر رہا تھا۔ شفیق الرحمان کی یہ خوبصورت کتاب پہلی دفعہ میں نے نویں جماعت میں پڑھی تھی۔ اُس زمانے میں شفیق الرحمان کی کوئی نہ کوئی کتاب میرے اسکول بیگ میں موجود رہتی تھی۔ وہ ڈاکٹر بھی تھے، فوجی بھی تھے اور مزاح نگار بھی۔
وہ اُمید، خوشی، مسکراہٹ، محبت اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو اپنے کرداروں میں ایسے سموتے کہ ہم جیسے نوعمر ان کرداروں میں اپنے آپ کو تلاش کرنے لگتے۔ کافی عرصہ پہلے میں نے یہ کتاب اپنے ایک دوست کو پڑھنے کیلئے دی تھی اور پھر وہ کتاب سمیت غائب ہو گیا۔جمعہ کی دوپہر وزیراعظم عمران خان نے میانوالی میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے نواز شریف کو جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھا تو حیران رہ گئے اور اُنہوں نے نواز شریف کی وہ میڈیکل رپورٹس نکال لیں جن میں کہا گیا تھا کہ اُنہیں دس پندرہ بیماریاں لاحق ہیں اور اگر اُنہیں علاج کے لئے بیرونِ ملک نہ بھجوایا گیا تو وہ اپنی جان سے بھی جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم حیران تھے کہ نواز شریف قطر ایئر ویز کی ایئر ایمبولینس کو اپنے سامنے دیکھ کر اچانک ٹھیک کیسے ہو گئے۔ وزیراعظم کی تقریر ختم ہوئی تو فون کالوں کی بھرمار ہو گئی۔ کوئی پوچھ رہا تھا کہ کیا وزیراعظم کو اپنی ہی حکومت کے بنائے گئے میڈیکل بورڈز کی رپورٹوں پر شک ہے؟ کوئی پوچھ رہا تھا وزیراعظم اتنے غصے میں کیوں ہیں؟ کوئی شام آٹھ بجے کے ٹاک شو میں بلا رہا تھا اور کوئی رات دس بجے کے ٹاک شو کی دعوت دے رہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس ویک اینڈ پر نہ کسی ٹی وی پروگرام میں جا کر سیاست پر گفتگو کرنی ہے اور نہ کسی سیاستدان سے ملاقات کرنی ہے۔ غیر سیاسی دوستوں کے ساتھ گپ لگائوں گا
اور کوئی ایسی کتاب پڑھوں گا جو ذہنی خلفشار میں اضافے کے بجائے ذہنی سکون کا باعث بنے۔ فوراً ذہن میں ’’حماقتیں‘‘ چھا گئی۔ پھر یاد آیا کہ یہ کتاب تو ایک دوست لے گیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد میں مسٹر بکس پر پہنچ گیا۔ ’’حماقتیں‘‘ ڈھونڈ رہا تھا کہ ایک معزز خاتون نے سلام کیا۔ تعارف میں بتایا کہ وہ ایک یونیورسٹی میں اُستاد ہیں۔ پھر بڑے مہذب انداز میں پوچھا ’’کیا آپ نے وزیراعظم صاحب کی تقریر سنی؟‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اُن کا دوسرا سوال تھا ’’کیا وزیراعظم عدلیہ کا نام لئے بغیر عدلیہ کا مذاق نہیں اُڑا رہے؟‘‘ میں نے جواب میں کہا کہ دراصل وہ اپنی ہی حکومت کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ خاتون پروفیسر نے کچھ طنزیہ انداز میں کہا کہ نواز شریف تو چلے گئے، یہ بتایئے کہ آصف زرداری کب جا رہے ہیں؟ یہ سوال سُن کر میں نے زبردستی مسکراتے ہوئے خاتون سے کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔
خاتون میرا پیچھا چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھیں۔اُنہوں نے کہا کہ دو ماہ قبل آپ نے محمد مالک کے ٹی وی شو میں کہا تھا کہ کسی نے اسحاق ڈار سے معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ آپ کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے، پھر آپ یہ بھی کہتے رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد ضرور آئیں گے لیکن استعفے کے بغیر واپس جائیں گے تاہم واپسی پر حکومت کا اعتماد اُن کی جیب میں ہو گا۔ آپ کہتے تھے کہ
مولانا کے پیچھے نواز شریف اور زرداری ہیں، نواز شریف نکل گئے، اب آپ بتائیں کہ زرداری کب جائیں گے؟ میں گفتگو نہیں کرنا چاہ رہا تھا لیکن خاتون کا احترام آڑے آ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آصف زرداری کہاں جائیں گے؟ خاتون نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر کہا وہ زیادہ سے زیادہ کراچی جائے گا لندن یا نیو یارک نہیں جائے گا کیونکہ ذرا بدمعاش ٹائپ کا آدمی ہے،
اُسے جیلیں کاٹ کر ہیرو بننے کا شوق ہے، اسی لئے تو مجید نظامی صاحب نے اُسے مردِ حُر کہا تھا کاش کہ مجید نظامی آج زندہ ہوتے تو اُن سے پوچھتی کہ جو سہولت نواز شریف کو ملی ہے وہ زرداری کو کیوں نہیں مل سکتی؟ ایک سیلز مین مدد کو آیا اور خاتون سے جان چھوٹی۔ سیلز مین مجھے شفیق الرحمان کی کتابیں دکھانے لگا ’’شگوفے‘‘ ’’لہریں‘‘ ’’انسانی تماشا‘‘ اور پھر ’’پچھتاوے‘‘ میرے سامنے آ گئی۔ کئی سال کے بعد ’’پچھتاوے‘‘ اپنے سامنے دیکھ کر مجھے بہت کچھ یاد آنے لگا۔
ایک دفعہ میں بیگم سرفراز اقبال کے ہمراہ راولپنڈی میں شفیق الرحمان صاحب سے ملنے گیا اور اُن سے کالم لکھنے کی فرمائش کی۔ گفتگو شروع ہوئی تو پتا چلا کہ وہ بہت دکھی اور اُداس تھے۔ جوان بیٹے کی موت نے اُنہیں اندر سے توڑ پھوڑ دیا تھا اور کچھ ’’پچھتاوے‘‘ اُن پر حاوی نظر آئے۔ پھر وہ انتقال کر گئے لیکن اُن کی کتابیں آج بھی زندہ ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے آج کل کے سیاستدانوں نے
ایسے کون سے کام کئے ہیں جو اُنہیں کل بھی زندہ رکھیں گے؟ کچھ گرفتار ہیں، کچھ گرفتار ہونے والے ہیں، کچھ آج رو رہے ہیں کچھ کل روئیں گے۔ میں کتابیں اُلٹ پلٹ رہا تھا کہ سیلز مین نے بھی موقع غنیمت جان کر پوچھا ’’سر جی! نواز شریف واپس آئے گا یا نہیں؟‘‘ میں نے قدرے تلملا کر کہا کہ واپس آ گیا تو تاریخ میں زندہ رہے گا، نہ آیا تو لوگ بھول جائیں گے۔ اگلا سوال تھا ’’سر جی عمران خان کا کیا بنے گا؟‘‘
میں نے جھلا کر کہا مجھے ’’حماقتیں‘‘ ڈھونڈ کر دو۔ سیلز مین نے مسکرا کر کہا ’’حماقتیں‘‘ تو آپ کے سامنے ہیں لیکن آپ کو نظر نہیں آ رہیں، یہ مولانا فضل الرحمٰن کی باتیں کیا ہیں؟ ’’حماقتیں‘‘ نہیں تو کیا ہیں؟ میں نے پوچھا کیا مطلب؟ کہنے لگا مولانا نے 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا جس چیف الیکشن کمشنر نے یہ الیکشن کرایا اب اُسی کی مدت ملازمت میں توسیع کا مطالبہ کر رہا ہے
تاکہ وہ فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کو فارغ کر دے۔ یہ سُن کر میں نے کہا تمہیں سب پتا ہے تو پھر مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ جواب میں بولا: سر میں نے بڑی اُمیدوں سے عمران خان کو ووٹ ڈالا تھا لیکن وہ زرداری کے وزیر خزانہ، زرداری کے وزیر اطلاعات اور پرویز مشرف کے وزیر قانون کو ساتھ ملا کر نیا پاکستان بنانے نکلا ہے۔ ایک سال میں ہمارا خانہ خراب ہو گیا ہے، اب ہمارے گھر میں ہنڈیا ٹماٹر کے
بغیر پکتی ہے، سر ہمیں زرداری، نواز شریف اور عمران خان سے کوئی غرض نہیں، ہمارا مسئلہ دال روٹی ہے وہ روز بروز مہنگی ہو رہی ہے۔میں خاموش ہو گیا تو سیلز مین نے کہا: ’’حماقتیں‘‘ ختم ہو گئی ہے ،البتہ یہ ’’مزید حماقتیں‘‘ پڑی ہوئی ہے فی الحال اسی سے گزارا کریں۔ میں نے شفیق الرحمان کی کتاب ’’مزید حماقتیں‘‘ کا بل ادا کیا اور واپسی پر یہ سوچتا رہا کہ ہمارے سیاستدانوں نے اپنی ’’مزید حماقتیں‘‘ بند نہ کیں تو کل کو ان کا نام تاریخ میں اچھے الفاظ سے درج نہیں ہو گا۔