پیر‬‮ ، 07 اکتوبر‬‮ 2024 

ایک اور چھٹی کے دن شریف خاندان کو ریلیف، ماڈل ٹاؤن کمیشن میں شہباز شریف کے خلاف رپورٹ لکھنے والے جج نے شہباز شریف کا بیان حلفی کیوں تسلیم کیا؟ کیا کبھی کسی عام آدمی کو بھی لاہور ہائی کورٹ سے چھٹی والے دن ریلیف ملا ہے؟ معروف قانون دان کے حیرت انگیز انکشافات

datetime 17  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف قانون دان ایڈووکیٹ عبدالغفار نے لاہور ہائی کورٹ کے میاں نواز شریف بارے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ضمانت لئے بغیر عدالت نے نوازشریف کو اختیار دیتے ہوئے علاج کے لیے باہر جانے کے لیے حکم دیا ہے، کسی قسم کی ضمانت نہیں لی گئی یہ ہم سب کے لیے حیران کن بات ہے، ایڈووکیٹ عبدالفغار نے ایک ویب چینل زیڈ ایم نیوز کو انٹرویو کے دوران کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کا اختیار ایگزیکٹو کے پاس ہے اور ایگزیکٹو ریاست ہے،

عدالت نے اس کیس کو میرٹ پر سننے کے لیے دن مقرر کر دیا، پہلے اس کیس کو پیر والے دن سنا جانا تھا، لیکن یہ کیس کیوں کہ شریفوں کاتھا باقی لوگوں سے ان کی جان زیادہ ضروری ہے اور بڑی قیمتی ہے، اس کے لیے ہفتے کے دن جو عام روٹین میں چھٹی ہوتی ہے، ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہا کہ چھ سات سال سے میں وکالت کر رہا ہوں لیکن اس دوران کسی کیس کی تاریخ ہفتے کو نہیں پڑی، ہفتے کو کورٹ ورکنگ نہیں ہوتی، ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہاکہ 11 بجے کیس کی سماعت شروع ہوئی، اس موقع پر حیران کن طور پر جاوید ہاشمی بھی موجود تھے، عدالت نے سوال پوچھا کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کر دی ہے تو حکومت اس میں شرائط کیوں عائد کر رہی ہے، ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہا کہ ضمانت علیحدہ چیز ہے اور میڈیکل گراؤنڈ علیحدہ چیز ہے، ہمارے ہاں میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانتیں نہیں ملتیں لیکن یہ کیونکہ سپیشل کیس تھا اس لیے میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت دے دی، ای سی ایل سے نام نکالنا یہ ایگزیکٹو اتھارٹی کے پاس اختیار ہے، اس موقع پر ایڈووکیٹ عبدالغفار نے بچے کی کسٹڈی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب والد یا والدہ نے بچے کو باہر لے کر جانا ہوتا ہے تو وہ شیورٹی بانڈ جمع کروا کر پھر جاتے ہیں، شیورٹی بانڈ جمع کروائے بغیر باپ یا ماں بچے کو باہر نہیں لے کر جا سکتا، یہاں میاں نواز شریف مجرم ہیں اور ان کی فیملی کا پس منظر یہ ہے کہ تمام بھگوڑے ہیں تو آپ ان کو بغیر شیورٹی بانڈ کے انہیں باہر بھیج رہے ہیں،

ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہا کہ عدالت میں میاں شہباز شریف نے انڈر ٹیکنگ دی کہ میں ضمانت دیتا ہوں کہ جب میاں نواز شریف کو ڈاکٹرز اجازت دیں گے تو وہ پاکستان آئیں گے۔ جن کے پاس انہوں نے علاج کراناہے وہ ریاست کے ڈاکٹرز نہیں ہیں۔ بیماریاں تو ان کے اندر ہیں لیکن کیا جو لوگ جیلوں میں بیمار پڑے ہیں کیا ان کو ریلیف ملتا ہے، بالکل نہیں ملتا، انہوں نے کہا کہ شیورٹی بانڈ اور بیان حلفی الگ الگ چیزیں ہیں، عام کیسز میں یہ ہوتاہے کہ جب ضمانت دی جاتی ہے تو وہ بندہ اپنی پراپرٹی کو بطور ضمانت کے رکھواتا ہے

عدالت میں، جب یہ بندہ نہیں آتا تو عدالت کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ بحق سرکار اس کی جائیداد کو ضبط کر لے اور یہاں پر سادہ بیان حلفی ہے شیورٹی بانڈز نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آٹھ ہفتوں کی ضمانت دی ہے اور آٹھ ہفتوں کے بعد پنجاب حکومت کو اس میں توسیع کا اختیار دے دیا ہے، یہاں پر عدالت کہہ رہی ہے کہ اگر توسیع کرنا ہو گی تو عدالت کے پاس آ جائیں، تو پھر وہ آرڈر کدھر جائے گا۔ ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہا کہ جب شیورٹی بانڈ عدالت کو یا ریاست کو کوئی دے کر جاتاہے تو وہ دوسرے ملک میں سیاسی پناہ نہیں لے سکتا۔

معروف قانون دان نے کہا کہ یہ وہاں سیاسی پناہ حاصل کرناچاہتے ہیں اسی وجہ سے انہوں نے شیورٹی بانڈ جمع نہیں کرائے۔ انہوں نے کہا سماعت کے دوران ن لیگ کے وکلاء نے کہا کہ جب میڈیکل گراؤنڈ پرضمانت ہے تو شیورٹی کس لئے۔ معروف قانون دان نے کہا کہ اگر میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت ملتی ہے تو تب بھی شیورٹی دینا پڑتی ہے، انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بڑی ایمانداری سے یہ کیس لڑا لیکن اگلے سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ معروف قانون دان نے کہا کہ وہ لوگ ذہن بنا کر بیٹھے تھے کہ ان کو باہر جانے دیں اگر ان کو روکا گیاتو شاید کوئی قیامت آ جائے گی،

انہوں نے کہا کہ اب سب کچھ کھوہ کھاتے چلا گیا ہے، میاں شہباز شریف کے حوالے سے معروف قانون دان نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کیس میں قابل احترام جج نے کہا کہ یہ ذمہ دار ہیں، جج نے کہاکہ کیس کی ذمہ داری میاں شہباز شریف کی طرف جا رہی ہے، پنجاب حکومت کی طرف جا رہی ہے، ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہا کہ ایک بار ان سے بھی پوچھ لیتے کہ آج اپنے بھائی کے لیے تو بڑے رو رہے ہیں اور قوم سے دعائیں منگوا رہے ہیں، جو 14 لوگ آپ نے دن دیہاڑے مارے تھے اور سو سے زیادہ زخمی کئے تھے ان کا بھی کوئی احساس ہے اور میرا جو کمیشن تھا وہ کدھر گیا، یہ سلیکٹڈ جسٹس ہے اس نے ہماری عدالتوں سے لوگوں کا اعتماد اٹھا دیاہے،

ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل کیسز میں جاتے ہیں تو ہمیں وہ ریلیف نہیں ملتا، جب کسی پاور فل آدمی کا کیس ہوتا ہے تو اسے ریلیف ملتا ہے۔ اگر ہماری عدالتوں کا یہی حال رہا تو لوگ عدالتوں کے خلاف باہر نکل آئیں گے، معروف قانون دان نے کہا کہ عدالتوں سے عوام کا اعتماد ختم ہونے جا رہا ہے، مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ عدالتیں یہ کس کو خوش کرنے کے لیے کر رہی ہیں، جب آپ آؤٹ آف دی وے جا کرکسی کو ریلیف دیں گے تو سوال تو اٹھے گا، میرے ایک دوست جو عوامی تحریک کے کیسز دیکھتے ہیں وہ مجھے بتا رہا تھا کہ ان کے 107 ارکان کو سزا ہو گئی ہے، ایک سال ہو گیا ہے کہ ان کی سسپنشن فکس نہیں ہو رہی، اس کی سماعت نہیں ہو رہی، ان میں سے ایک شخص کی ہلاکت ہو گئی ہے،

یہاں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، یہاں کسی کو کوئی دکھ نہیں ہوتا، ہمارے میڈیا کو، انسانی حقوق والوں کو۔ تھر کے اندر لوگ مر رہے ہیں کوئی پوچھتا نہیں، سانحہ ساہیوال میں دن دیہاڑے لوگ مارے گئے کوئی نہیں پوچھنے والا۔ جہاں پر کوئی مضبوط اور طاقتور آدمی جاتاہے اس کو یہ ریلیف بھی دیتے ہیں اس کی باتیں بھی سنتے ہیں۔ معروف قانون دان نے شہبازشریف کی باڈی لینگوئج کے متعلق کہا کہ آپ نے شہباز شریف کے انڈر ٹیکنگ اور بیان حلفی سے دیکھ لی ہو گی، ان کو پتہ تھا اور وہ پراعتماد تھے کہ جیسے بس رسمی کارروائی ہونی ہے اور باقی تو سب کچھ کرا کر آئے ہیں، معروف قانون دان نے کہا کہ مجھے یہ امید تھی کہ عدالت کہے گی کہ آپ شیورٹی بانڈ ریاست کو جمع نہ کروائیں عدالت کو جمع کروا دیں لیکن یہاں تو نیا ہی کچھ ہوا کہ بیان حلفی کی بنیاد پر انہیں اجازت دے دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی بھی ان کا لیا جا رہاہے جو لوگوں کے قتل میں ملزم ہیں۔ ایک بندہ جو چودہ قتلوں کا ذمہ دار ہے اور جناب نے خود اس کمیشن کی رپورٹ دی ہے، اب اس سے بیان حلفی لیا جا رہا ہے کہ یہ بیرون ملک سے واپس آئیں گے۔ یہ سارا ڈرامہ ہوا ہے اور یہ بڑی دکھ کی بات ہے، عدالتیں آہستہ آہستہ اپنا اعتماد کھوتی جا رہی ہیں۔ معروف قانون دان نے کہا کہ یہ کیس اپیل میں جانے کے لیے انتہائی مضبوط کیس ہے اور اپیل میں سپریم کورٹ ریلیف دے سکتی تھی۔ معروف قانون دان نے کہا کہ عمران خان نے اپنی فیس سیونگ کے لیے بال عدالت کی کورٹ میں ڈال دی اور عدالت نے بڑے ہی اچھے طریقے سے جیسے لوگ کل سے کہہ رہے ہیں کہ اسی طرح اس کو کر دیا ہے۔ اپیل کے لیے یہ بڑا مضبوط کیس ہے، اس میں ریلیف مل سکتا ہے لیکن اب کیونکہ حکومت کو پتہ ہے کہ کون ہے جو مجبور کر رہا ہے اور حکومت ڈائریکٹ ان سے تنازع نہیں چاہتی۔ جب بھی حکومت کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اپیل ہو سکتی ہے یہ نہیں کر رہے تو اس کے پیچھے کوئی وجوہات ہو سکتی ہے۔

موضوعات:



کالم



کوفتوں کی پلیٹ


اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…