ہفتہ‬‮ ، 20 دسمبر‬‮ 2025 

وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ کیسے مانگا جا سکتا ہے؟آزادی مارچ اگر ختم ہوا تو اس میں کیا شرائط شامل نہیں ہونگی؟ بڑا نقطہ اٹھا دیا گیا

datetime 12  ‬‮نومبر‬‮  2019 |

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار خلیل احمد نینی تال والا اپنے کالم ’’دھرنا مارچ اور مذاکرات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔دھرنا ہونا تھا اور ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ دھرنا کس طرح ختم کیا جائے؟ جو بھی درمیانی راستہ نکالا جائے یا فیس سیونگ دی جائے گی اس میں کچھ چیزیں تو یقیناً شامل نہیں ہوں گی، (1)وزیراعظم کا استعفیٰ نہیں ہوگا۔ (2)نئے انتخابات نہیں ہوں گے۔

لیکن مولانا فضل الرحمٰن کا ’’آزادی مارچ‘‘ ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ گزشتہ روز تیز ہوائیں چلیں، بادل بھی برسے، سردی کی شدت میں اضافہ ہوا، ’’دھرنا نشینوں‘‘ کی مشکلات بڑھ گئیں لیکن وہ مولانا فضل الرحمٰن کے اشارے کا انتظار کرتے رہے۔ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ حکومتی کمیٹی وزیر دفاع پرویز خٹک کی زیر قیادت رہبر کمیٹی کے ارکان سے بات چیت میں لگی ہوئی ہے۔ رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنے مطالبات پر قائم ہیں اور وزیراعظم کا استعفیٰ پہلے نکتے پر ہے تو ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے پرویز خٹک بھی شہادت دیتے ہیں کہ فریقین اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ کسی ایسے حل کی تلاش جاری ہے جس سے دھرنے کو فیس سیونگ مل جائے اور حکومت کا بھی نقصان نہ ہو۔ ایک کے بعد دوسرے دور پر اتفاق کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فریق بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتا۔ مذاکراتی کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری برادران کے درمیان بھی بات چیت شروع ہے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری ظہور الٰہی شہید کے سیاسی جانشین (علی الترتیب بیٹے اور بھتیجے) ہیں۔ مرحوم چوہدری صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن کے والد مولانا مفتی مرحوم کی سیاست برسوں ہم سفر رہی۔ مولانا فضل الرحمٰن کے نزدیک ان کی اور ان کے نزدیک مولانا کی قدر و قیمت واضح ہے۔ مولانا ان سے ملنے کے لئے بنفسِ نفیس ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ چوہدری شجاعت کی طبیعت ناساز ہے تو انہوں نے خود پیش قدمی کر لی۔مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ہم خیال رفقا سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے اور اس میں مزید وزن اس وقت پیدا ہو جاتا ہے، جب مولانا کے دائیں بائیں کھڑے اپوزیشن رہنما اسمبلیوں میں ابھی تک براجمان نظر آتے ہیں۔ آزادی مارچ و دھرنے میں بھلے لاکھوں افراد شریک ہوئے ہوں، ان کی تعداد تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ’’دھرنیوں‘‘ سے بہت زیادہ ہو، وزیراعظم عمران خان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں پر بھی جتنی پُرزور تنقید کر لی جائے، اس سب کو وزیراعظم کے استعفے کا جواز کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یہ تسلیم کہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا غیر آئینی نہیں ہے، یہ بھی تسلیم کہ نئے انتخابات کا مطالبہ بھی خلافِ دستور نہیں ہے، اس مقصد کے لیے دھرنا دیا جا سکتا ہے، مارچ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن بات زبردستی منوائی نہیں جا سکتی۔ صد شکر کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے شرکا کا نظم و ضبط مثالی ہے اور وہ پُرامن انداز میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…