کراچی(این این آئی)کراچی کے علاقے نیو کراچی کا رہائشی، 6 بچوں کا باپ، 45 سالہ محمد سلیم جو چند روز قبل اپنی 4 سالہ بیٹی کو پاگل کتے سے بچاتے ہوئے ریبیز جیسی لاعلاج بیماری کا شکار ہو گیا تھا،گزشتہ رات جناح اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دم توڑ گیا،محکمہ صحت کے مطابق اب تک سندھ میں 19 افراد ریبیز کا شکار ہوکر اذیت ناک موت سے ہم کنار ہو چکے ہیں،
بے بس اہل خانہ سلیم کا جسد خاکی بہاولپور لے گئے۔جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق محمد سلیم کو مسکن ادویات دی جارہی تھی تاکہ اسے درد اور اذیت سے بچایا جاسکے۔انہوں نے بتایا کہ مرنے سے چند گھنٹے قبل مریض کے اہلِ خانہ نے اسے اسپتال سے لے جانے اور کسی پیر کی درگاہ پر نہلانے کی بھی کوشش کی تھی لیکن وہ ڈاکٹروں کے سمجھانے بجھانے پر ایسا کرنے سے باز آ گئے تھے۔چند روز قبل پیشے کے لحاظ سے درزی سلیم اپنی4سالہ بیٹی کو لے کر گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ گلی میں پہلے سے موجود آوارہ کتے نے اس کی بیٹی پر حملہ کر دیا۔سلیم نے کتے کا وار اپنے ہاتھوں پر روکا اور دوسرے ہاتھ سے اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جس پر کتے نے اس کے ہاتھ کا انگوٹھا چبا ڈالا۔بچی ڈر کر اپنے باپ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی جبکہ گلی میں موجود لوگوں نے کتے کو پتھروں اور ڈنڈوں سے مار کر بھگا دیا۔سلیم کو فوری طور پر سندھ گورنمنٹ اسپتال نیو کراچی لے جایا گیا جہاں پر کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے اسے عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا مگر حیران کن طور پر وہاں بھی اینٹی ریبیز ویکسین موجود نہیں تھی۔عباسی شہید اسپتال میں موجود عملے نے سلیم کے اہلِ خانہ سے اسپتال کے باہر کسی میڈیکل اسٹور سے ویکسین خرید کر لانے کو کہا، جس کی ایک ڈوز اسے اسی وقت لگا دی گئی اور باقی ویکسین یا دوا اس کے
حوالے کرکے کہا گیا کہ اسے کسی بھی کلینک سے لگوا لیا جائے۔مرحوم کے بھائی عامر نے بتایاکہ سرکاری اسپتالوں میں بروقت ویسکینیشن نہ ہونے کے باعث محمد سلیم کی ہلاکت ہوئی، سندھ گورنمنٹ اسپتال نیوکراچی اور عباسی شہید اسپتال لے کر گئے تھے لیکن وہاں اینٹی ریبیز ویکسین نہیں ملی تھی، عباسی اسپتال نے باہر سے ویکسین منگوا کر آدھی خوراک دے کر اسے گھر بھیج دیاتھا۔
ڈاکٹرسیمی جمالی کے مطابق محمد سلیم جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں 2 روز تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہا کیونکہ ڈاکٹروں کے بقول اسے ریبیز کی لاعلاج بیماری لاحق ہوچکی تھی اور وہ صرف اس کے درد اور تکلیف کو کم کرنے کے لیے دردکش ادویات ہی دے رہے تھے۔جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے بقول اگر اس
مریض کو بروقت اینٹی ریبیز ویکسین لگا دی جاتی تو اسے یہ مہلک مرض لاحق نہیں ہوسکتا تھا۔انہوں نے کہاکہ محمد سلیم کو جس روز اسپتال لایا گیا تو وہ ہائیڈرو فوبیا یعنی پانی سے خوف کھانے کی کیفیت میں مبتلا تھا جبکہ دیگر کیفیات اور علامات سے یہ واضح ہوتا تھا کہ وہ ریبیز کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہو چکا تھا۔انہوں نے کہاکہ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ کراچی کے 2 بڑے سرکاری اسپتالوں میں
کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود نہیں، جس کی وجہ سے ایک انسان جو کہ اپنے 6 چھوٹے بچوں اور حاملہ بیوی کا واحد کفیل تھا ایک دردناک اور اذیت ناک موت کا شکار ہوگیا۔محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 19 افراد ریبیز کا شکار ہوکر اذیت ناک موت سے ہم کنار ہو چکے ہیں جبکہ اب تک پورے سندھ میں 2 لاکھ سے زائد افراد کو آوارہ کتے کاٹ چکے ہیں۔
کراچی کے اسپتالوں سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال 31 اکتوبر تک 90 ہزار سے زائد افراد جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہیں آوارہ کتوں کے ہاتھوں بری طرح زخمی ہو چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق ریبیز جیسی درد ناک موت سے بچاو کا واحد ذریعہ ان کتوں کی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ کتے کے کاٹنے کے واقعات میں نمایاں حد تک کمی ہو جائے اور وہ چند افراد جو ان کتوں کا شکار بنیں انہیں فوری طور پر اینٹی ریبیز ویکسین کا کورس کروا دیا جائے۔