اسلام آباد(آن لائن)حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی گرفتاری کا بیان بغاوت ہے،وزیراعظم کے استعفیٰ پر کوئی بات نہیں ہوگی، اس بارے میں سوچیں بھی نہیں۔اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکومتی مذکراتی ٹیم کے اراکین نے پریس کانفرنس کی۔اس موقع پر وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اجلاس میں بہت سے امور پر متفقہ بات چیت ہوئی،
ہم ابھی بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، جس کے پیچھے ان کے مقاصد ہے۔دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ رہبر کمیٹی کے رکن اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اکرم درانی سے رابطے میں ہیں اور مذاکرات کے دروازے تاحال کھلے ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک یا کسی چیز کو نقصان پہنچا تو یہ ذمہ داری اپوزیشن پر آئے گی کیونکہ انہوں نے معاہدہ کیا ہے، اگر یہ معاہدہ نہ کرتے تو پھر یہ جو چاہتے کرسکتے تھے لیکن انہیں معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی کی خواہش کے مطابق ایچ نائن میں انہیں جگہ دی گئی اور رہبر کمیٹی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کی مولانا فضل الرحمن نے توثیق کی جبکہ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے الفاظ پر قائم ہے اور معاہدے پر پیچھے نہیں ہٹے گی۔وزیر دفاع پرویز خٹک نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن نے پشاور موڑ پر طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی طرح مارچ کیا تو ذمہ دار رہبر کمیٹی ہوگی۔حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین کی پریس میں انہوں نے کہا کہ کل جو تقریری ہوئی اس پر بہت افسوس ہوا جس میں اپوزیشن نے حکومت پر تنقید کی۔ساتھ ہی وزیردفاع نے کہا کہ کل کی تقریروں میں زیادہ تنقید اداروں پر کی، یہ پاکستان کے ادارے ہیں، اداروں نے ملک کو بچایا، شہادتیں اور قربانیاں دیں، علاقہ غیر کو صاف کروایا، لہذا یہ سب کے ادارے ہیں اور انہیں ملک دشمنی نہیں کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ایک ادارہ غیرجانبدار ہوا تو انہیں مسئلہ ہوا، ادارے غیرجانبدار کردار ادا کر رہے ہیں،
ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جو ادارے ہوتے ہیں چاہے فوج ہو یا بیوروکریٹس یہ سب حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔پرویز خٹک نے کہا کہ پہلی مرتبہ ادارہ غیر جابندار ہوا تو مسلم لیگ (ن)کو شکست ہوئی، شہباز شریف کو اپنے گریبان میں جھکانا چاہیے کیونکہ جنرل جیلانی کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے وہ استعفے کا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ 30 سے 40 ہزار لوگ آکر استعفی مانگنے لگ جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ پھر ملک میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔
حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ رہبر کمیٹی کے سیاسی لوگوں کو اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنی بات پر کھڑے بھی ہونا چاہیے، ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اپوزیشن کا آگے بڑھنے کا اعلان ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ملک میں معیشت کا گراف بہتری کی طرف گامزن ہے تاہم ابتدائی مرحلے میں سخت نوعیت کے فیصلے لینے پڑھیں۔دوران پریس کانفرنس سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کو مخاطب کرکے سوال اٹھایا کہ وہ بتائیں کہ فوج نے انہیں پولیسنگ، کچہری، تعلیمی اداروں کے نظام کو ٹھیک کرنے سے روکا تھا؟