کراچی(این این آئی)عروس البلاد کراچی وقت گزرنے کے ساتھ کنکریٹ کے بے ہنگم جنگل میں تبدیل ہو چکا ہے جب کہ شہر کے دامن میں سیکڑوں کی تعداد میں واقع کچی آبادیوں میں کئی کئی منزلہ تعمیرات کی بھرمار اوربنیادی قواعد وضوابط سے کھلی روگردانی خطرے کی گھنٹی ہے۔
ماہرین کے مطابق مذکورہ عمارتیں ناقص تعمیرات کی وجہ سے 6.5 شدت کے زلزلے کوبرادشت نہیں کرپائیں گی، اس گھمبیر صورتحال کے باوجود کچی آبادیوں میں غیر معیاری اورناقص تعمیراتی سرگرمیاں دھڑلے سے جاری ہیں۔ سندھ میں سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس مجریہ 1979 کا قانون متعارف کرائے جانے کے باوجود تاحال نہ اس پر عمل درآمدکیاگیا ہے اور نہ ہی ایس بی سی آرڈیننس کی شقوں کے مطابق باقاعدہ تقرریاں کی گئی ہیں۔ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد)نے اس ضمن میں فوری ایکشن پلان ترتیب دیتے ہوئے آگاہی مہم کا آغاز کردیا ہے اور متعلقہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، وزیراعلی سندھ، چیف سیکرٹری سندھ، وزیر بلدیات سندھ کوخطوط ارسال کردیئے ہیں،جن میں یہ واضح کیاگیا ہے کہ ایس بی سی اوکے عدم نفاذ کے سبب کراچی اور صوبے بھر میں غیرقانونی اور غیرمعیاری تعمیرات کے علاوہ کچی آبادیوں میں اضافے کا رحجان غالب ہے اور ان تعمیرکردہ عمارتوں کی زندگی بمشکل 15 سے25سال ہوتی ہے جو خدانخواستہ کسی قدرتی آفت آنے کی صورت میں اس کی شدت برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں جن کی تباہی سے لاکھوں افراد کے لقمہ اجل بن جانے کاخطرہ ہے۔اس ضمن میں آباد کے چئیرمین محسن شیخانی نے بتایاکہ ہر چند روز بعدملک کے کسی نہ کسی علاقے میں زلزلہ آرہاہے جبکہ کراچی زون ٹو میں واقع ہے اور اس شہر میں غیرقانونی تعمیرات اتنی غیرمعیاری ہیں کہ وہ 6.5 شدت کے زلزلے کی صورت میں 10لاکھ سے زائدافراد کو لقمہ اجل بناسکتی ہیں۔