اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی و کالم نگار مظہر عباس اپنے کالم ’’اور کرپشن جیت گئی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔پھر اس نے مجھے ایک اور قصہ سنا کر حیران کر دیا۔آپ کو یاد ہے ایک صاحب کچھ عرصے کے لئے وزیراعظم بنے تھے۔ وہ باہر سے لائے گئے تھے اور ان کی بڑی شہرت تھی۔ میں نے کہا ہاں، کیوں کیا ہوا تھا۔ اس نے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا وہ کراچی ایئرپورٹ پر آئے تو
سب سے پہلے جس شخص سے گلے ملے اس پر بعد میں نیب کا مقدمہ چلا، سزا ہوئی اور پھر ایک اور وزیراعظم کے کہنے پر پیرول پر مستقل رہائی مل گئی۔ وہ بھی مجھے جیل میں ایسے ہی مشورے دیتا تھا کہ حالات سے سمجھوتا کر لو۔ دیکھو میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر FIAمیں اعلیٰ پوزیشن پر رہا ہوں۔یہ80کی دہائی کی بات ہے جب ایک صاحب نے ایک جعلی کاروبار کے ذریعے ہزاروں خاندانوں کی برسوں کی کمائی لوٹ لی۔ مجھے آج بھی یاد ہے میں جس اخبار میں ان دنوں کام کرتا تھا اس نے بڑی خبریں دیں کہ یہ فراڈ ہے مگر اس نے بڑے بڑے اشتہارات دے کر منہ بند کر دیئے۔ آج بھی یہ بہترین طریقہ ہے زبان بندی کا۔غرض یہ کہ ایک دن وہ پکڑا گیا مگر کاروبار چلتا رہا۔ وہ جیل سے کورٹ لایا جاتا اور وہاں موجود ایک پک اپ میں بیٹھ کر دھندہ جاری رکھتا۔ تو تمہیں مہران بینک بھی یاد ہوگا۔جی جی یاد ہے۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کو عدالت نے دس سال کی سزا سنائی تھی مگر وہ تین سال میں باہر آ گیا۔ کمال کا فنکار آدمی تھا۔ دبلا پتلا، چھوٹا قد مگر جب اس کے حوالے سے اس وقت کے ہوم سیکریٹری واجد رانا کی وفاقی و صوبائی حکومت کو لکھی جانے والی رپورٹ دیکھی تو میں حیران تھا کس کس طرح اس نے اپنی سزا میں کمی کروائی۔جیسا کہ بیٹھے بٹھائے امتحان پاس کرنا، سانپ نہ ہوتے ہوئے بھی مارنا، حد تو یہ ہے کہ جتنا خون اس کے جسم میں نہیں تھا اتنا خون وہ دے چکا تھا۔ کبھی بلڈ گروپ ایک ہوتا تو کبھی دوسرا۔ یہ سب کاغذی کارروائیاں تھیں۔ ہوم سیکریٹری نے لکھا کہ نہ صرف اس کی سزا بحال کی جائے بلکہ فراڈ کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اس خط کا نتیجہ یہ ہوا کہ رانا صاحب کا ٹرانسفر اسلام آباد ہو گیا اور وہ جیل سے باہر آ گیا۔