اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی انصار عباسی نے ایک موقر قومی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ مریم نواز کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو کا دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے، انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایک اعلیٰ آئینی عہدہ رکھنے والے جو کہ اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور اتنی ہی اہمیت کے حامل شخص جو کہ اب بھی ریاستی ادارے میں اہم عہدہ رکھتے ہیں،
ان کا نام مبینہ ویڈیو کے دوسرے حصے میں ہے، جس کا پہلا حصہ مریم نواز ہفتے کے روز منظر عام پر لائی تھیں، انہوں نے باوثوق ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مبینہ ویڈیو کے دوسرے حصے میں جو مواد ہے وہ پہلے حصے سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔تاہم، عام تاثر کے خلاف دوسرے حصے میں جو نام شامل ہیں ان کاتعلق نہ ہی راولپنڈی سے ہے اور نہ ہی آب پارہ سے ہے۔ معروف صحافی نے لکھا کہ مبینہ ویڈیو کے دوسرے حصے میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی باقی ماندہ بات ہے جو کہ مبینہ طور پر یہ تفصیلات بتا رہے ہیں کہ ان پر کس طرح دباؤ ڈال کر نواز شریف کے خلاف فیصلہ لیا گیا۔ مبینہ ویڈیو کے دوسرے حصے میں دکھایا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج اس حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں جس کا تجربہ انہیں ایک اہم شخصیت کے دفتر میں کرنا پڑا تھا جو کہ اب بھی اس اہم عہدے پر موجود ہیں، مذکورہ ویڈیو کے دوسرے حصے میں جو مبینہ ملزم ہے وہ خاصی اہم شخصیت ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ کس طرح مبینہ طور پر نواز شریف کے خلاف کیس کی نگرانی کی گئی، اس میں ہدایت دی گئی اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں مریم نواز کی جانب سے میڈیا کو پیش کی جانے والی ویڈیو کا حوالہ دیا اور انہوں نے لکھا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک، کسی ناصر بٹ نامی شخص کو بتارہے تھے کہ ان کے پاس ہر کسی کے خلاف خفیہ مواد ہے۔ اس ویڈیو میں جج نے کہا کہ انہوں نے مجھے بلایا اور ویڈیو دکھائی جسے دیکھنے کے بعد میرے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ میں ان کے کہنے پر عمل کروں۔انصار عباسی نے کہا کہ اس ویڈیو سے جج ارشد ملک نے کلی طور پر اعلان تعلقی نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے جو ویڈیو دکھائی وہ حقائق کے برعکس ہے اور اسے مختلف مقامات کی مختلف باتوں کو ملا کر پیش کیا گیا ہے۔