اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہاہے کہ عدالت نہیں کہتی کہ نجی اسکول منافع نہ کمائیں، نجی اسکول اللہ کا شکر بھی ادا کریں،فیس اضافے میں کوئی حد بھی ہونی چاہیے،ہم سکول فیس کیس کا فیصلہ آرٹیکل 18کے تحت ہی کرینگے ، فیصلہ تجارت ، پیشے ، انڈسٹری اور اداروں کو بھی متاثر کریگا،کیس کا اثر ملکی بجٹ پر بھی پڑے گا۔
ڈیرہ غازی خان میں میں پڑھتا تھا اور ڈیڑھ روپے فیس تھی، 144 روپے سالانہ فیس دیتے تھے،مجھے فکر غریب بچوں کی ہے وہ کدھر جائیں گے،دو سے چار بلین اسکولوں والے اگر ادھر تعلیم پر بھی خرچ کر دیں تو بہتری آ جائیگی۔بدھ کو کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ماشاء اللہ نجی اسکولز اچھے خاصے پیسے کمارہے ہیں ،معاملے کو عدالت لا کر کیا نجی اسکول مزید پیسہ کمانا چاہتے ہیں ؟ ۔ وکیل نجی اسکول نے کہاکہ حکومت نے 2015 میں فیس میں اضافے کو منجمد کردیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ نجی اسکول 8 سے 10 فیصد فیس میں کمی کرنے کو تیار تھے، 5 فیصد سالانہ اضافے سے اسکول مالکان کو نقصان نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ 5 فیصد سالانہ اضافے کی رکاوٹ ختم ہوئی تو مالکان 15 سے 20 فیصد سالانہ اضافہ کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسکول خسارے میں ہو تو فیس اضافے کی اجازت ہو، اسکول منافع میں چل رہا ہو تو فیس میں اضافہ مناسب نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ نظرثانی کی درخواست ہے اگر 20 فیصد اضافے کو دیکھنا عدالت کا کام نہیں تو 8 فیصد اضافے کو دیکھنا کیسے ہو گیا؟ ہم سکول فیس کیس کا فیصلہ آرٹیکل 18 کے تحت ہی کریں گے۔
اس کیس کا فیصلہ تجارت، پیشے، انڈسٹری اور اداروں کو بھی متاثر کرے گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس کا اثر ملکی بجٹ پر بھی پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ دیکھنا ہو گا کہ آرٹیکل 18 میں کس حد تک مداخلت کر سکتے ہیں۔ وکیل نجی سکول شاہد حامد نے کہاکہ اگر تعلیم دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے تو نجی سکولوں کو سبسڈی دی جائے۔انہوں نے کہاکہ بیکن ہاؤس اپنے 15 فیصد سے زائد طلبہ کو سکالرشپ دے رہا ہے۔
وکیل نجی سکول نے کہاکہ بیکن ہاؤس کے اساتذہ کی کم از کم تنخواہ ہائی کلاس کی فیس کا چار گنا سے زیادہ ہوتی ہے۔دور ان نجی سکول کے وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہوگئے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل 25 اے کے تحت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، تعلیم فراہم کرنے کا معاملہ حکومت نے نجی تعلیمی اداروں کو فروغ دے کر آوٹ سورس کیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ نجی تعلیمی ادارے حکومت کے ساتھ تعلیم فراہمی میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اس مقصد میں شامل ہونے کے بعد حکومت کی ریگولیشن کی پابندی بھی کرنا ہوگی۔ وکیل شہزاد الٰہی نجی سکول نے کہاکہ آرٹیکل 25 اے تعلیم کی بات کرتا ہے سستی تعلیم کی نہیں، فیس میں اضافے کا تعین انتظامیہ کا کام ہے۔ وکیل نے کہاکہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو بھی انتظامیہ کنٹرول کرتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ایک نجی اسکول کا سالانہ منافع 353 ملین ہے، نجی اسکول کی سالانہ منافع میں اضافے کی شرح 36 فیصد ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا منشیات کے علاوہ کسی اور کاروبار میں اتنا نفع ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نہیں کہتی کہ نجی اسکول منافع نہ کمائیں، نجی اسکول اللہ کا شکر بھی ادا کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ فیس اضافے میں کوئی حد بھی ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نجی اسکولوں کو ریگولیشن پسند نہیں تو لائسنس نہ لیں، نجی اسکول کا لائسنس چاہیے تو ریگولیشن کو بھی فالو کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آپ آڈٹ رپورٹ دیکھیں تو بلین روپے ہوتے ہیں لگتا ہے حکومت کو ریگولیشن پر اختیار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ زیادہ سے زیادہ اضافے پر پابندی بلا وجہ نہیں لگی، اسکولوں کے مالکان کہتے ہیں راتوں رات پیسہ کما لیں۔ وکیل نے کہاکہ کسی والدین نے آج تک آکر نہیں کہا کہ فیس زیادہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ والدین پریشان ہیں ہم بھی اسی معاشرے میں رہتے ہیں، وہ اسی وجہ سے دو دو نوکریاں کرتے ہیں۔
وکیل نے کہاکہ والدین پر لوئی زبردستی نہیں ہے وہ اپنی مرضی سے ان اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے یہ سب کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہی اسکولوں کے بچے دنیا میں سکولر شپ لے رہے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ چھوٹے سے چھوٹے شہر میں بھی ہمارے اسکول موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ڈیڑھ روپے فیس دینے والا میرے جیسا کہاں جائے گا۔
اتنی کم فیس نہیں آپ کی۔چیف جسٹس نے کہاکہ غریب بچے کہاں جائیں گے وہ تعلیم سے دور ہو گئے ہیں، سرکاری اسکول بھی اب ختم ہو گئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈیرہ غازی خان میں میں پڑھتا تھا اور ڈیڑھ روپے فیس تھی۔چیف جسٹس نے کہاکہ 144 روپے سالانہ فیس دیتے تھے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں دنیا میں کہیں محسوس نہیں ہوا کہ ہم گورنمنٹ اسکول سے پڑھے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے فکر غریب بچوں کی ہے وہ کدھر جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اچھا کام کر رہے ہیں جاری رکھیں، جو لوگ دیہات میں بیٹھے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ باہر ممالک والے سوچتے ہیں بچے اتنے زیادہ نمبر کیسے لے لیتے ہیں ہم کہتے ہیں بچے ذہین ہیں بہت۔چیف جسٹس نے کہاکہ مہنگی تعلیم نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ ہے، سمندر اگر پڑھے گا نہیں تو نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ بنے گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ دو سے چار بلین اسکولوں والے اگر ادھر تعلیم پر بھی خرچ کر دیں تو بہتری آ جائیگی۔بعد ازاں کیس کی سماعت کل جمعرات کو 12 تک ملتوی کر دی گئی ۔