اسلام آباد (این این آئی) حکومت نے اعلان کیا ہے کہ نیلم جہلم سرچارج 30 جون سے ختم ہوجائیگا۔ جمعہ کو یہ اعلان وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے سینیٹ اجلاس میں کیا۔پارلیمانی وزیر نے بتایا کہ نیلم جہلم سے اب تک 64 ارب روپے سرچارج کے طور پر وصول کئے جاچکے ہیں ۔ وزارت آبی وسائل کے مطابق اب تک 2400 گیگا واٹ بجلی نیلم جہلم پراجیٹ سے نیشنل گریڈ میں شامل کی جاچکی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اعظم سواتی نے کہا کہ فروری 2016ء میں وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کے درمیان معاہدے کے بعد یہ معاملہ حل ہو گیا تھا۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا کو 20 ارب روپے ادا کئے ہیں جبکہ باقی رقم بھی جلد جاری کر دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی کا بڑا مسئلہ ہے، کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے میں کم خرچہ آتا ہے، پانی کی قلت پر قابو پانا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر چھوٹے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بہائو کا موسم نہیں ہوتا تو پانی کی شدید قلت پیدا ہو جاتی ہے اور بہائو کے موسم میں سیلاب آ جاتے ہیں اس لئے پانی کو محفوظ بنانے کے لئے اضافی ذخائر کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت مختلف چھوٹے اور بڑے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد چینی اور آب پاشی کے مقصد کے لئے پانی فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال کے دوران چار درمیانے اور بڑے ڈیموں کی تکمیل کے ذریعے نظام میں 4.5 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ حکومت ملک میں چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر کا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قابل تجدید توانائی سے انرجی مکس 4 فیصد ہے جسے 2025ء تک 20 فیصد اور 2030ء تک 30 فیصد تک لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم گرین انرجی، تھرکول، قابل تجدید توانائی اور مقامی وسائل سے 2030ء تک 70 سے 75 فیصد بجلی حاصل کرنے کی منصوبہ بند کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت
کو نہیں بڑھایا۔ اگر اس وقت اقدامات کئے جاتے آج پانی کا اتنا مسئلہ نہ ہوتا۔ موجودہ حکومت قلت آب پر قابو پانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں دو نئے بلاکس سورا اور تونگ کو پی پی ایل اور ایم پی سی ایل کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ
سندھ سے مجموعی ملکی ضروریات کا ساڑھے 31 فیصد تیل اور 64 فیصد گیس کی پیداوار آ رہی ہے۔وفاقی وزیر پٹرولیم عمر ایوب نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں 12 کنوئوں کی کھدائی کی گئی ہے جبکہ صوبہ سندھ میں تیل و گیس کی تلاش اور پیداوار کی 17 کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔