ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کیا بھٹو کو پھانسی سے پہلے ہی مار دیا گیا تھا؟ وہ شخص کون تھا جو بھٹو کا پاجامہ اتار کر پوشیدہ اعضاء کی تصاویر بناتا رہا؟ حامد میر کے سنسنی خیز انکشافات

datetime 6  اپریل‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد راولپنڈی جیل میں ان کی لاش ایک فوٹو گرافر کے حوالے کر دی گئی اور یہ فوٹو گرافر لاش کا پاجامہ اتار کر بھٹو صاحب کے پوشیدہ اعضاء کی تصاویر بناتا رہا؟ اس جیل کے سکیورٹی انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ’’بھٹوکے آخری 323دن‘‘میں لکھا ہے کہ یہ فوٹو اس لئے بنوائے گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟

جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے جیل حکام کو بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ماں ہندو تھی جسے ان کے والد نے زبردستی اپنی بیوی بنایا تھا اور بھٹو صاحب کا اصلی نام نتھا رام تھا تاہم کرنل رفیع الدین نے گواہی دی ہے کہ جب فوٹوگرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے بہت نزدیک سے فوٹو لئے تو پتا چلا کہ ان کا اسلامی طریقے سے ختنہ ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن ان کی موت آج بھی ایک راز ہے۔ کرنل رفیع الدین نے لکھا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو وہ بھوک ہڑتال پر تھے اور جیل میں ان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا تھا لیکن بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو یقین تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے روزنامہ جنگ کے لئے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ان کی گردن ٹوٹی نہ گردن پر پھانسی کا کوئی نشان تھا۔ یہ انٹرویو جی این مغل کی بیگم نصرت بھٹو کے بارے میں کتاب ’’مادرِ جمہوریت‘‘ میں شامل ہے۔1992ء میں بیگم صاحبہ کا یہ انٹرویو شائع ہوا اور اسی زمانے میں صادق جعفری کی کتاب(WAS BHUTTO KILLED BEFORE HANGING?)’’کیا بھٹو کو پھانسی سے پہلے مار دیا گیا؟ ‘‘شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی محمود احمد بھٹو اور بھٹو خاندان کے ایک ملازم عبدالقیوم تنولی سمیت ایسے کئی عینی شاہدوں کے بیانات شامل ہیں

جن کا دعویٰ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی گردن سلامت تھی اور پھانسی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ 1979ء میں بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنے ایک نوجوان افسر کیپٹن صولت رضا کو ایک فلم ایڈیٹنگ کے لیے دی تھی جس میں بھٹو صاحب کا جسدِ خاکی نظر آ رہا تھا۔ صولت رضا بریگیڈیئر بن کر ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ایک کالم میں لکھا کہ ’’یہ غسلِ میت سے پہلے کا منظر تھا‘‘۔ اسی کالم میں بریگیڈیئر (ر) صولت رضا نے لکھا کہ ’’اللہ شاہد ہے کہ پھانسی کے شارٹس اس فلم میں نہیں تھے‘‘۔ ایڈیٹنگ کے بعد یہ فلم میجر جنرل مجیب الرحمٰن کے حوالے کردی گئی۔ صولت رضا کی یہ گواہی ان کی کتاب ’’غیر فوجی کالم‘‘ میں محفوظ ہو چکی ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…