کراچی(این این آئی)عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بینک سے قرض لینے کا رجحان خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے۔ ورلڈ بینک کے ڈیٹا میں شامل کمرشل بینکوں کے 2006 سے لے کر 2018 تک ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں ہر ایک لاکھ بالغ افراد میں سے صرف 26 افراد بینک سے قرض لیتے ہیں۔
پاکستان کے مقابلے میں بنگلادیش اور تھائی لینڈ میں یہ شرح بالترتیب 87 اور 254 ہے۔ ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ 2009 کے بعد سے پاکستان میں قرض داروں کی تعداد گھٹتی چلی جارہی ہے جو خراب معاشی صورت حال کو ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کے برعکس بنگلادیش میں قرض داروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اور اسی تناسب سے وہاں غربت میں کمی آرہی ہے۔ چناں چہ قرض داروں میں اضافہ کرکے عوام کے معیار زندگی میں بہتری ممکن ہے۔ مگر پاکستان میں حکومت مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے بھاری قرضے حاصل کرلیتی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس اور اداروں کو قرض دینے کے لیے بینکوں کے پاس برائے نام رقم بچتی ہے۔ کمرشل بینک بھی عام لوگوں کی نسبت حکومت کو قرض دینے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ عوام الناس کے ڈیفالٹ کرجانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بہرحال بنگلادیش کی طرح پاکستان میں کمرشل بینک ذاتی ضمانت پر ہنرمند افراد کو قرض مہیا کرسکتے ہیں۔عالمی بینک کے ڈیٹا میں کہا گیا ہے اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کو کمرشل بینکوں تک لانے کے لیے پالیسیاں بنائے۔ دوسری جانب کمرشل بینکوں کو بھی قرض فراہم کرنے کا عمل اور طریقہ کار سادہ، لچکدار بنانا ہوگا اور قرض پر شرح سود کم کرنی ہوگی۔ حکومت کی جانب سے یوتھ لون پالیسی کا اجرا لائق تحسین قدم ہے۔