ساہیوال (نیوز ڈیسک) سانحہ ساہیوال میں دہشت گرد قرار دیے جانیوالے شخص ذیشان کی ہلاکت کے فوراً بعد افغانستان سے آنیوالی کال پکڑی گئی، حیرت انگیز انکشافات سامنے آ گئے، ذیشان کی ہلاکت کے بعد افغانستان سے آنے والی کال ریکارڈ ہو گئی، ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ ساہیوال سانحہ ہونے کے فوری بعد افغانستان سے ایک کال آئی، جس میں پوچھا گیا کہ ساہیوال سانحہ میں ذیشان ہلاک ہو گیا، یہ کیسے ہوا اور اس کے دیگر ساتھی کدھر ہیں،
افغانستان سے آنے والی کال پر مخبر نے کہا کہ دیگر ساتھی محفوظ ہیں، اس کے جواب میں کال کرنے والے شخص نے ذیشان کے دیگر ساتھیوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کا کہا۔دوسری جانب صوبائی وزیر راجہ بشارت نے کہا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کے قتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے ملتان میں آئی ایس آئی افسران کے قتل میں سلور رنگ کی ہونڈا سٹی کار استعمال کی جس کی تلاش پولیس اور ایجنسیوں کو تھی۔صوبائی وزیر قانون کے مطابق 13 جنوری کو ہونڈا سٹی کار دہشت گردوں کو لے کر ساہیوال گئی،اس حوالے سے سیف سٹی کیمروں کا معائنہ کیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ ذیشان کی سفید رنگ کی آلٹو بھی دہشت گردوں کی گاڑی کے ساتھ تھی۔انہوں نے کہا کہ ذیشان کی گاڑی بھی دہشت گردوں کے استعمال میں تھی،ان کا مزید کہنا تھا کہ ایجنسی اہلکار 18 جنوری کو کیمروں کی مدد سے ٹریس کرکے ذیشان کے گھر پہنچے تھے۔راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ 13 سے 18 جنوری تک کیمروں کا معائنہ کیا گیا تھا جس دوران یہ تصدیق ہوئی کہ ذیشان دہشت گردوں کے ساتھ کام کررہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ذیشان کے گھر میں دہشت گرد بڑی مقدار میں گولہ بارود کے ساتھ موجود تھا، گھر گنجان آباد علاقے میں ہونے کی وجہ سے آپریشن کرنا مناسب نہیں تھا کیونکہ اس سے بے گناہ جانوں کو خدشہ لاحق تھا، اس لیے گاڑی کے علاقے سے نکلنے کا انتظار کیا گیا۔
صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ 19 جنوری کو سیف سٹی کیمرے کی مدد سے سفید آلٹو کو مانگا کے مقام پر دیکھا گیا جس کی اطلاع ایجنسی کو دی گئی،گاڑی لاہور کی حدود سے باہر نکل چکی تھی اس لیے سی ٹی ڈی ٹیم کو گاڑی روکنے کا کہا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس کے مطابق دہشت گرد گاڑی میں بارود لیکر جارہے تھے اور وہ کسی گنجان آباد مقام کی طرف گامزن تھے۔راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ جب ساہیوال میں گاڑی کو روکا گیا تو اس موقع پر فائرنگ ہوئی،
گاڑی کے شیشے کالے تھے،پچھلی سیٹوں پربیٹھیلوگ دکھائی نہیں دے رہے تھے اور گاڑی ذیشان خود چلارہا تھا۔انہوں نے کہا کہ فائرنگ کیوں اور کیسے ہوئی اس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی جس کی رپورٹ کی روشنی میں مزید کارروائی کی جائے گی۔صوبائی وزیر قانون کے مطابق سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق پہلا فائر ذیشان نے کیا تھا جبکہ لواحقین کے مطابق فائرنگ سی ٹی ڈی نے کی جس کا تعین ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
جے آئی ٹی کے تحت یہ تحقیقات بھی کی جائیں گی کہ خلیل کا ذیشان کیساتھ کیا تعلق تھا اور ان کا خاندان ذیشان کی گاڑی میں کیوں سوار تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ذیشان کی گاڑی سے 2 خودکش جیکٹ، 8 ہینڈ گرنیڈ،2 پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں، اس حوالے سے بھی تحقیقات کی جائیں گی کہ اسلحہ کہاں اور کیوں لے جایا جارہا تھا۔وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ آپریشن کی خبر میڈیا پر نشر ہونے کے بعد ذیشان کے گھر میں موجود 2 دہشت گردوں نے سوشل میڈیا پر خبر دیکھی اور گجرانوالہ کا رخ کیا۔انہوں نے کہا کہ جب ایجنسی اور سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ان دہشت گردوں کا پیچھا کرکے انہیں گھیرے میں لے لیا تو انہوں نے اپنے آپ کو خودکش جیکٹوں کیذریعے اڑالیا۔
راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ اگر ان دہشت گردوں کا پیچھا نہیں کیا جاتا تو وہ پنجاب میں بہت بڑی تباہی پھیلادیتے، اس حوالے سے تھریٹ الرٹ بھی موصول ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن انٹیلی جنس بنیاد پر آئی ایس آئی اور سی ٹی ڈی کی جانب سے مشترکہ طور پر کیاگیا لیکن اس میں خلیل کے خاندان کے جانی نقصان کی وجہ سے آپریشن کی حیثیت چیلنج ہوگئی۔صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کو متاثرہ خاندان سے دلی ہمدردی ہے اور انہیں انصاف فراہم کیا جائیگا اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور تمام ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ صوبائی حکام نے جے آئی ٹی بنانے سے متعلق وزارت داخلہ کو رپورٹ کیا تھا جس کے بعد غیرجانبدارانہ جے آئی ٹی وزارت داخلہ نے تشکیل دی تھی۔