پشاور(این این آئی)خیبرپختونخوااسمبلی نے احتساب کمیشن کے خاتمے سے متعلق بل کو کثرت رائے سے منظورکرلیا احتساب کمیشن کے تمام ملازمین کو سرپلس پول بھیجاجائے گا جہاں انہیں دوسرے محکموں میں ذمہ داریاں تفویض کی جائیں گی اسی طرح احتساب کمیشن میں جاری تمام انکوائریاں اورکیسزمحکمہ اینٹی کرپشن کے حوالے کردئیے گئے۔تنسیخ احتساب کمیشن بل2013ء ایوان میں صوبائی وزیرقانون سلطان محمدنے پیش کیا
انہوں نے وضاحت کی کہ احتساب کمیشن کے تمام ملازمین کوسرپلس پول بھیجنے کے بعد دوسرے محکموں کے حوالے کرنے کیلئے سکروٹنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔اسی طرح جوملازمین سرپلس پول میں نہیں جاناچاہتے انہیں گولڈن ہینڈشیک دیاجائیگا ایم ایم اے کے ظفراعظم نے احتجاجاًتنسیخ کابل پیش کرنے کے موقع پر ایوان سے واک آؤٹ کیا قبل ازیں انکاموقف تھاکہ اس قانون کو2014ء میں کیوں پیش کیاگیا اگراینٹی کرپشن اتناہی فعال ہے تو اس وقت اینٹی کرپشن کوفعال کرنے کے بجائے کمیشن کوکیوں قائم کیاگیابحث میں حصہ لیتے ہوئے اے این پی کے سرداربابک نے کہاکہ ریکارڈپرموجود ہے کہ ہم نے بل پیش کرتے وقت واضح کیاتھاکہ نیب کے مقابلے میں دہراقانون ہے اینٹی کرپشن کی موجودگی میں صوبے میں دوسراادارہ بنایاگیالیکن ہمیں بتایاگیاکہ نیب جانبدارادارہ ہے احتساب کمیشن غیرجانبداری سے شفافیت کوبرقراررکھے گاحکومت قوانین پیش کرتے وقت کسی سے مشاورت نہیں کرتی اوریہی وجہ ہے کہ جوقوانین پاس کئے جاتے ہیں اس میں چند ماہ کے اندر درجنوں ترامیم کی جاتی ہیں تنسیخ احتساب کمیشن بل پیش کرتے وقت اے این پی کے رکن صلاح الدین کی ترامیم کو حکومت نے ردکردیا اوربعدازاں بل کو بھی کثرت رائے سے منظورکرلیا۔احتساب ایکٹ کو2014ء میں سابقہ حکومت نے منظورکیاتھا جس کے تحت ایک کمیٹی کاقیام عمل میں لایاگیاجسکے سربراہ جنرل (ر)حامد نے جنوری 2015ء سے کام شروع کیا تاہم صوبائی حکومت کے ساتھ اختلافات کے باعث چند ماہ بعدانہوں نے استعفیٰ دیا
بعدازاں احتساب ایکٹ میں ترامیم کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں8سے زائد ترامیم کی گئیں سابق صوبائی اسمبلی نے احتساب کمیشن کے سربراہ کیلئے اختیارات پشاورہائیکورٹ کو تفویض کئے لیکن پشاورہائیکورٹ نے اس ترمیم کو کالعدم قراردیتے ہوئے موقف اپنایاکہ عدلیہ کاانتظامی امور سے کوئی سروکارنہیں ،محکمہ خزانہ کے مطابق احتساب کمیشن کے لئے تین سالوں کے دوران ایک ارب پانچ کروڑ مختص کئے گئے جن میں سے مختلف افسران نے بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات وصول کئے تاہم احتساب کمیشن کے ملازمین کا موقف ہے کہ کمیشن نے تین سالوں کے دوران تنخواہوں اور مراعات کی مد میں 70کروڑسے زائد خرچ کئے ۔