اسلام آباد(آن لائن)وفاقی حکومت نے عالمی بینک کو قرضوں کی فراہمی میں تاخیر اور اسکولوں میں داخلوں کی تعداد بڑھانے میں خاصی کم کامیابی ملنے پر سندھ میں جاری ایک تعلیمی منصوبہ روکنے کی ہدایت کردی۔وفاقی حکومت کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے عالمی بینک نے منصوبے کو منسوخ کرنے کی کارروائی کا آغاز کردیا جو حکومتِ سندھ کے منصوبے ’سیکنڈ سندھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم پروگرام‘ کے دوسرے فیز کی حمایت کے لیے تھا۔
ا س ترقیاتی کوششوں کا مقصد تعلیم کے شعبے میں انتظامی صلاحیت اور احتساب کو بہتر بنا کر اسکولوں میں طالبعلموں کی تعداد میں اضافہ کرنا اور ان کا کارکردگی کو جانچنا تھا۔عالمی بینک کے مطابق مجموعی طور پر منصوبے کے مقاصد کی تکمیل خاصی اطمینان بخش رہی جس سے اسکولوں میں بنیادی میعار کے درجے میں 16۔2015 میں 922 سے بڑھ کر 2018 میں ایک ہزار 3 سو 36 ہوگئی۔دوسری جانب جماعت پنجم سے ششم میں جانے والے طالبعلموں کی سالانہ تعداد میں بہتری آئی اور یہ 2017 میں 58.1 فیصد سے بڑھ کر 69.2 فیصد ہوگئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس پر عملدر?امد 2018 کے وسط میں شروع ہوا اور ادائیگیوں میں تاخیر ستمبر 2018 میں ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک پہنچی۔چونکہ اس منصوبے کو قرضوں کے حصول میں تاخیر کا سامنا ہے اس لیے حکومت نے اس میں مزید توسیع کیے بغیر ختم کرنے کا ارادہ کرلیا ، خیال رہے کہ منصوبہ 17۔2013 کے درمیان پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا ور اس کی مدت دسمبر 2018 تک تھی۔اس سلسلے میں عالمی بینک کی بین الاقوامی ترقیاتی ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے) نے آسان شرائط پر مارچ 2013 میں 40 کروڑ ڈالر کے قرضے کی منظوری دی تھی جس میں سے 32 کروڑ 14 لاکھ ڈالر موصول ہوئے جبکہ4 کروڑ 97 لاکھ ڈالر اب بھی باقی ہیں۔دوسری جانب منصوبے کی کل لاگت26 سو ڈالر تھی جس میں 40 کروڑ کے آئی ڈی اے کے قرضہ جات بھی شامل ہیں۔
منصوبے کے لیے مختص کردہ اعشاریوں کے مطابق پرائمری اسکولوں میں 6 سے 10 سال کی عمر کے مڈل اسکولوں میں 11 سے 13 سال ا ور ثانوی اسکولوں میں14 سے 15 سال کی عمر کے طالبعلموں کی تعداد میں اضافہ کرنا تھا ، جبکہ سرکاری اسکولوں میں جماعت پنجم سے ہشتم کے ٹیسٹ کو سالانہ بنیا دوں پر مرتب کرنا تھا۔اس سلسلے میں کیے گئے ایک تجزیے کے مطابق دیہی علاقوں میں غریب گھرانو ں سے تعلق رکھنے والیں لڑکیوں کے اسکول میں داخلہ لینے کی تعداد نہایت کم ہے۔دوسری جانب ضلعی سطح پر بھی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح مختلف دیکھی گئی جبکہ کچھ اضلاع میں دیہی اور شہری فرق بھی بہت زیادہ رہا۔