اسلام آباد(پ ر)پاک ترک فائونڈیشن کے طلبہ نے قوم ، رہنمائوں ، منصفین اور خصوصاََ چیف جسٹس آف پاکستان سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پاک ترک اسکولز کے طلبہ نہ تو دہشتگرد ہیں اور نہ ہی ہماری تربیت دہشتگردوں نے کی ہے۔ ہم اس قوم کیلئے امید کی کرن ہیں کیونکہ ہماری تربیت کی بنیاد قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگی کے ساتھ فلاح
انسانیت ہے۔ خدارا آپ اس بہترین تعلیمی اور تربیتی نظام کو منفی پراپیگنڈے بنیاد پر برباد ہونے سے بچا لیجئے اور اسے کسی بھی دوسرے ادارے کے حوالے سے کرنے سے قبل حقائق کا ادراک کر لیجئے۔ پاک ترک سکولز ہمارے پاکستانی رضاکاروں کی انتھک محنت اور ایثار کا ثمر ہیں جن کے قیام کی بنیاد مواخات مدینہ جیسی شاندار سنت پر ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کی شروعات میں ترک اساتذہ کا اہم کردار رہا ہے مگر وہ سب اس ملک سے جا چکے ہیں اور اب یہ قانونی طور پر سیکشن 42کے تحت قائم شدہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ہمارا ایک بیش بہا قومی اثاثہ ہے جس کی سرپرستی کی ذمہ داری اس کے شروع کرنے اور بے دریغ قربانیاں دینے والے ممبران اور ڈائریکٹرز کےسپرد ہے۔ ایک کامیاب ادارے کو معارف فائونڈیشن جیسے غیر ملکی نوزائیدہ اور سیاسی ادارے کے سپرد کرنا تباہی کے مترادف ہو گا۔ اس فائونڈیشن نے دو سال قبل بھی اس نظام پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر اس وقت کےمنصفین نے ایسا نہ ہونے دیا۔ آج بھی ہمیں منصفین سے شفاف انصاف کی توقع ہے۔ یہ کیس پہلے ہی سے ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا مگر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے عدالت عالیہ کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ معارف فائونڈیشن یا کوئی بھی غیر ملکی ادارہ اگر پاکستان سے اتنا ہی مخلص ہے تو ہمیں انہیں دعوت دینی چاہئے کہ وہ آئیں اور ایک نئے نظام کی داغ بیل ڈالیں اور اسی نوعیت کے مزید ادارے قائم کریں کہ جن کی پاکستان میں اشد ضرورت ہے۔ اس کام میں ہم ان کا بھرپور ساتھ دیں گے مگر ایک کامیاب نظام کو قبضے میں لیکر اس کی ساکھ اور شناخت کو خطرے سے دوچار کر دینا یقینی طور پر ملکی مفاد کے خلاف ہے۔