اسلام آباد (این این آئی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اتفاق رائے قائم کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ،جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی دعوت دیتا ہوں ، حکومت کا جنوبی پنجاب صوبہ نہ بننے تک وہاں کے عوام تک اختیارات کی منتقلی کیلئے آئندہ مالی سال کے آغاز پر سیکرٹریٹ کے قیام کا ارادہ ہے،
پی ایس ڈی پی میں جنوبی پنجاب کی ترقی کیلئے الگ فنڈز مختص کئے جائینگے ۔جمعرات کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایوان میں قائد حزب اختلاف نے صوبہ جنوبی پنجاب کے مسئلے پر اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس مقصد کیلئے آگے بڑھنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اس معاملے پر واضح موقف لے چکی ہے اور صوبے کا قیام ہمارے منشور کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ جنوبی پنجاب کا معاملہ بہت پرانا ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگوں کی آراء بدلتی گئی اور بہت سے عوامل نے انہیں تقویت دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پسماندگی کو پیمانہ بنایا جائے تو پنجاب نسبتاً ایک ترقی یافتہ صوبہ سمجھا جاتا ہے لیکن پنجاب بھی اس حوالے سے تقسیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے عوام 1970ء سے اپنے صوبے کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں، کسی بڑی قومی جماعت نے اس مسئلے کو اونر شپ نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی اس کا مختلف حوالوں سے ذکر کرتی رہی ہے تاہم مسلم لیگ (ن) اس میں رخنہ ڈالتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایک قانونی تبدیلی آئی ہے، اس کے بعد ایک نئی شق ڈال دی گئی کہ جس صوبے نے تقسیم ہونا ہے وہاں کی صوبائی اسمبلی اکثریتی قرارداد منظور کرکے سینیٹ کو بھجوائے جس کے بعد آئینی ترمیم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ ہر کام کر سکتے تھے، لیکن ماضی میں پیپلز پارٹی کے پاس اور آج ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی‘ پی ٹی آئی سمیت ایوان کی تمام جماعتوں کے اپنے اپنے موقف ہیں تاہم کسی جماعت کی طرف سے صوبہ جنوبی پنجاب کی مخالفت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے کہ کوئی کسی پر سبقت نہ لے جائے۔ ایسے معاملات میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں تاج لنگاہ مرحوم اس مسئلے پر آواز اٹھاتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق دور میں جب جنوبی پنجاب صوبے کی بات کی گئی تو یک نہ شد دو شد کی بات کرکے معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی پنجاب جو ہندوستان کا حصہ بنا وہ ہم سے چھوٹا تھا مگر وقت کیساتھ ساتھ آبادی اور ضروریات میں اضافہ کی وجہ سے پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایوان اس معاملے پر متفق ہے تو ہمیں سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے جب تک دوتہائی اکثریت نہ ہو یہ ترمیم منظور نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے عوام اپنا حق مانگ رہے ہیں۔
سیاسی اتفاق رائے وجود میں آنے کے بعد ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی کو دعوت دی کہ ہم سب مل کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت بن جاتے ہیں اور صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرلیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت حل نہیں ہو سکتا۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ جب تک صوبہ نہیں بنتا وہاں کے لوگوں کو انتظامی اختیارات کیلئے سیکرٹری بنا لیتے ہیں مگر اس تجویز کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ نہ بننے تک پی ٹی آئی حکومت کا جنوبی پنجاب کے عوام تک اختیارات کی منتقلی کیلئے سیکرٹریٹ قائم کرنے کا اراد ہے اور آئندہ مالی سال کے آغاز پر اس معاملے پر پیش رفت کی جائیگی ۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں جنوبی پنجاب کی ترقی کیلئے الگ فنڈ مختص کئے جائینگے۔