اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی ، تجزیہ کار اور کالم نگار ہارون الرشید اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہیجان میں مبتلا، منتقسم معاشرے میں بہترین اذہان کو بعض اوقات نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یک رخے پن کا اس میں غلبہ ہوتا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی ان میں سے ایک ہیں۔ صلح جو، عالی ظرف، ٹھنڈے دل و دماغ والے، حقیقت پسند جنرل، مائیکل ملن کو سمجھاتے رہے
کہ ایک قبائلی سماج تاریخ عمل میں جدید معاشرے میں ڈھلتا ہے۔ جمع تفریق میں جنرل کا ذہن طاق ہے۔ امریکیوں سے بار بار انہوں نے کہا کہ ایک جدید افغان فوج کی تشکیل تقریباََ ناممکن ہے۔ اول تو اس کیلئے الگ سے آٹھ بلین ڈالر سالانہ درکار ہونگے ۔ ثانیاََ باہم متصادم فوج کو قوم پرستی کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے ایک زمانہ لگے گا۔ امریکیوں نے چار بلین ڈالر سالانہ مختص کئے۔ انہوں نے شمال کے مکینوں سے فوج کو بھر دیا۔ یہ اس کا بنیادی تضاد ہے۔ آج ایک عشرے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ جتنے لوگ مرتے یا فوج سے فرار ہوتے ہیں، اس قدر نئی بھرتی ممکن نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ وفاداری کا فقدان ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اقلیت تادیر اکثریت پہ حکومت نہیں کرتی۔ بھاڑے کے لوگ ادھورے، جلد باز، سطحی اور موقع پرست ہوتے ہیں۔ ان کے بل پر قومیں تسخیر نہیں کی جا سکتیں۔ اتنی ہی بڑی حماقت امریکیوں نے یہ کی کہ چین دشمنی میں بھارتیوں کو ایک بہت اہم کردار افغانستان میں سونپنے کی کوشش کی۔ افغان ہندو کشمکش کی تاریخ ایک ہزار برس پرانی ہے۔ شمال سے ہونے والے حملوں اور دوسرے عوامل نے افغانوں کو شکی مزاج بنا دیا ہے۔ پاکستانی مسلمانوں سے، صدیوں کی مشترک تاریخ کے باوجود، ابتلا میں تاریخی ایثار کے باوجود، اسلام آباد پہ پوری طرح کبھی انہوں نے بھروسہ نہ کیا تو بھارت پہ کیسے کرینگے۔ ان کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے کا نام
کوہ ہندوکش ہے۔ اس کے سائے میں محمود غزنوی نے جے پال کے لشکروں کو کچل ڈالا تھا۔ پھر سترہ بار اس نے ہندوستان پر ہلغار کی۔ لاہور میں اپنا گورنر اس نے بٹھا دیا تھا۔ ہارون الرشید مزید لکھتے ہیں کہ مغربی ذہن غلط طور پہ یہ سمجھتا ہے کہ انسانوں کی مادی ضروریات، ان کے انداز فکر کو یکسر بدل سکتی ہیں۔ اسی بنا پر مسلم معاشروں کا ادراک کرنے سے وہ قاصر رہا۔ برسوں سے
عرض کر رہا ہوں کہ جیسے ہی پاکستان کو موقع ملا، انکل سام سے وہ پنڈ چھڑا لے گا۔ شاید وہ وقت قریب آن لگا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عشرے میں چینی معیشت، امریکی معیشت سے بڑھ جائے گی۔ بیس برس کے بعد کیا ہو گا؟ تیس برس کے بعد کیا ہو گا؟افغانستان کو ایسی پیشکش چین نے کی ہے، امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود، جسے یکسر وہ نظر انداز نہ کر سکیں گے۔
ہرات کے راستے، وسطی ایشیا کے ذریعے، یورپ سے جوڑنے کی پیشکش۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ بتدریج تین سے دس بارہ بلین ڈالر سالانہ کی یافت۔ آج بھی افغانستان کی تذویراتی اہمیت بہت ہے۔ اگر ایسا ہوا، اگر سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے کی پیش کش افغانوں نے قبول کر لی۔ کابل اور قندہار کے راستے گوادر سے اگر وہ جڑ سکے تو افغانستان کے معاشی دلدر دور ہو جائیں گے۔
ایک تاریخی عمل کا آغاز ہو جائے گا۔ افغانستان کو یکسر جو بدل ڈالے گا۔ اگر تعلیم فروغ پا سکی تو بتدریج جدید اقوام کی صف میں وہ کھڑا ہو سکے گا۔ علاقے میں امن اور قرار سے ایسے تغیرات رونما ہونگے۔ جن کا آج صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے واپسی چاہتے ہیں۔ یہ پینٹا گان ہے، اب تک جو اڑا ہوا ہے، کب تک وہ اڑا رہے گا۔
بے شک طالبان میں بھی تکان پیدا ہو چکی ہو گی۔ مگر انکل سام تو ابھی سے اضمحال میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ افغان قوم کے مزاج شناس، اس آدمی نے جو آسمان سے زمین کو دیکھتا تھا یہ کہا تھا کہ افغانوں کی سخت جانی بالآخر انہیں بچا لے جائے گی۔۔۔ او ریہ کہا تھا: آسیا یک پیکر ِ آب و گل است، ملتِ افغان در آن پیکر دل است، ملتِ افغان درآن پیکر دل است ، ازفسادِ او فسادِ آسیا، درکشادِ او کشادِ آسیا
(ایشیا کے پیکرِ آب و گل میں افغانستان قلب کی مانند ہے۔ اس کے فساد سے ایشیا میں فساد اور اس کی کشاد سے ایشیا میں کشاد)قیمت جب بڑھ جاتی ہے تو خریدار کو ہاتھ اٹھانا ہوتا ہے۔ طالبان کی کامیابیاں ان کا اعتماد برقرار رکھیں گی۔ محدود وسائل بھی گوریلا جنگ لڑنے والوں کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ اپنے زیر اثر علاقوں میں تاجروں سے وہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ منشیات کی آمدن اس کے سوا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں کا کوئی مستقبل ہے اور نہ بھارتیوں کا۔ جس طرح دوسرے فریق راہ پہ آتے دکھائی دیتے ہیں، افگانستان کے باب میں رفتہ رفتہ پاکستان بھی حقیقت پسندی کی طرف بڑھا ہے۔ افسوس کہ داخلی کشمکش میں نہیں۔