اسلا م آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )وزیراعظم عمران خان کے مرغیاں اور کٹے پالنے کے منصوبے نے ایک بھونچال برپا کر رکھا ہے اور اپوزیشن سمیت صحافتی حلقوں میں بھی اس حوالے سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔اس حوالے سے معروف صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مرغیاں اور کٹے پالنے کا یہ منصوبہ اس سے قبل شہباز شریف نے 2016میں
شروع کیا تھا ، اپنے کالم میں حامد میر لکھتے ہیں اسلام آباد میں واقع جناح کنونشن میں حکومت کی جانب سے 100 روز ہ کارکردگی سے متعلق تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں میں بھی شریک تھا جس کے دوران میری ایک وفاقی وزیر سے گفتگو جاری تھی اور مجھے لاہور سے ایک بیورو کریٹ نے واٹس ایپ پر کال کی اور بتایا کہ آج وزیراعظم عمران خان نے مرغیاں اور کٹے پالنے کے جس وڑژن کا اعلان کیا ہے یہ دراصل شہباز شریف کا وژن ہے۔ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے مویشی اور مرغیاں پالنے کے منصوبوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے تھے اور عمران خان نے شہباز شریف کے ان منصوبوں کو اپنا بنا کر پیش کر دیا ہے۔حامد میر کا کہناتھاکہ میرے بیورو کریٹ دوست کے لب و لہجے میں شدید غصہ نمایاں تھا ، نجانے کیوں مجھے مذاق کی سوجھی اور اس گستاخ نے اپنے بیورو کریٹ دوست کی خدمت میں عرض کیا کہ جس طرح شہباز شریف اپنی مرغیاں اور کٹے پال سکیموں کے ذریعے پنجاب میں غربت ختم نہ کر سکے تو کیا عمران خان بھی ان اسکیموں کے ذریعہ غربت ختم نہ کر پائیں گے؟ میرے بیورو کریٹ دوست نے کھسیانے انداز میں ایک نمائشی قہقہہ لگایا اور فوراً ہی اجازت طلب کر لی۔شہباز شریف نے مرغیاں پالنے کی اسکیم کا آغاز 2016ءمیں کیا تھا، اس سکیم کے تحت پنجاب کے سرکاری گرلز اسکولوں کی بچیوں کو
چار مرغیاں اور ایک مرغا دینے کا اعلان کیا گیا ساتھ میں ایک ڈربہ بنانے اور مرغیوں کی فیڈ کیلئے ماہانہ رقم بھی دی گئی۔ لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کے ایک ہزار گرلز اسکولوں میں اس سکیم کا آغاز کیاتھا۔ واضح رہے کہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے2016 میں ‘چکن’ سے غربت کے خاتمے کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے سب صحارا افریقی ممالک
کے 30 فیصد دیہی خاندانوں کو ایک لاکھ مرغیاں عطیہ کرنے کا اعلان کیا ۔بل گیٹس نے اس حوالے ایک مثال دیتے ہوئے کہاکہ فرض کریں ایک کسان پانچ مرغیاں پالتا ہے اور اس کے پڑوسی کے پاس ایک مرغا موجود ہے تو صرف تین مہینے میں اس کے پاس چالیس چوزے موجود ہوں گے جبکہ یہی چوزے مرغی بنیں گے تو ان کی قیمت پانچ ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ اس طرح سات سو ڈالر سالانہ
کمانے والا باآسانی ایک ہزار ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق زمبابوے کے اکثر گھروں میں مرغیاں پالی جاتی ہیں،لیکن ان سے خاطرخواہاں آمدنی نہیں ہوتی ، میسونگو صوبے میں ایک سروے میںچار سو گھروں اور سولہ نئے برائلر آپریشن کو شامل کیا گیا ان میں سے ہر ایک کے پاس پچاس سے سو مرغیاں تھیںجن میں سے صرف دو کی سالانہ آمدنی یک ہزار ڈالرتھی۔
زیادہ تر پانچ سو ڈالر یا اس سے کم کما پاتے ہیں۔ گھانا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ شمالی امریکی ملک بو لیو یا نے مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کی جانب سے عطیہ کی گئی مرغیاں لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پولٹری غربت کے خاتمے کا حل نہیں۔بولیویا سالانہ 19 کروڑ 70 لاکھ مرغیاں پیدا کرتا ہے اور تین کروڑ 60لاکھ ایکسپورٹ کرسکتاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکی دولت مند ہمیں بھکاری سمجھتے ہیں جبکہ ہماری قوم محنت کش قوم ہے جو صرف مرغیوں پر گزارا نہیں کرتی۔ بولیویا کے دیہی ترقی کے وزیر کیسر کوکاریکو نے کہا کہ ہم پانچ سو سال قبل بھی جنگلوں میں رہتے تھے،اور جانتے تھے کہ انہیں کیسے پالنا ہے۔