اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں بنچ نے خیبر پختونخوا کے اسپتالوں کے فضلے کی تلفی کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ اس موقع پر سیکرٹری صحت عدالت میں پیش ہوئے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ خیبرپختونخواہ کی حالت بدترین ہے، کن بنیادوں پر آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں
کہ کے پی کو جنت بنا دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خیبرپختونخوا کے وزیر صحت کیوں نہیں آئے، سیکرٹری صحت ہر بار پیش ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے صوبائی سیکرٹری صحت سےاستفسار کیا کہ آپ نے پشاور مینٹل اسپتال کا دورہ کیا ہے جس پر انہوں نے کہا گزشتہ ہفتے گیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا وہاں انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالت میں رکھا جا رہا ہے، لوگ اپنے گھروں میں کتوں کو بھی اس طرح نہیں رکھتے، سیکرٹری صحت خیبرپختونخوا نے کہا کہ آپ کے دورے کے بعد بہتری کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں، ایک الگ کیمپس بھی قائم کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ‘میں سیمپل لایا تھا وہاں دوائیاں زائد المعیاد ہیں اور ڈاکٹر بھی نہیں جاتے، کن بنیادوں پر آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کے پی کو جنت بنا دیا گیا، صوبے کی حالت بدترین ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں تین چار دن بعد دوبارہ دورہ کر کے دیکھوں گا کہ کیا بہتری آئی ہے۔سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ خیبرپختونخوا کے 63 سرکاری اسپتالوں میں 4 ہزار کلو فضلہ روزانہ نکلتا ہے اور مشینیں 3600 کلو فضلہ تلف کرسکتی ہیں۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب بھی صوبے کے اسپتالوں میں 480 کلو فضلہ تلف نہیں ہوتا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا صوبائی حکومت اسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے کا بندوبست نہ کرسکی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دسمبر 2019 تک فضلے کے مکمل خاتمے کا ہدف دیا ہے جس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ کوشش کریں گے اگلے سال جون تک معاملہ حل کر دیں۔عدالت نے کیس کی سماعت 2 ماہ کے لیے ملتوی کردی۔